میں نے جب اس کو تاڑا سواد آگیا
اس نے جس منہ سے جھاڑا سواد آگیا
اپنے خونخوار ہاتھوں سے پھر اس نے جب
میرے کُرتے کو پھاڑا سواد آگیا
دیکھ کر ” سِین ” رہ گیر رُکتے گیۓ
اور ایسا لتاڑا سواد آگیا
لے گیۓ سارے مِل جُل کے تھانے مجھے
جیل میں جونہی واڑا سواد آگیا
اک سپاہی نے لِتّر چلاۓ جو نہی
ایک تِرچھا اک آڑا سواد آگیا
جب میں چیخا چنگھاڑا تو یہ شیر دل
شیر کی طرح دھاڑا سواد آگیا
دس منٹ میں ہی اس نے مرے عشق کا
جیسے حُلیہ بگاڑا سواد آگیا
رُو برُو شوخ کے مجھ کو پھینٹی پڑی
بن گیا میں سنگھاڑہ سواد آگیا
اس نے رشوت کا مجھ سے سُنا جس طرح
پانچ سو کا پہاڑا سواد آگیا
جس طرح مجھ کو پکڑا تھا چھوڑیں اسے
جس طرح چھوڑا چھاڑا سواد آگیا
ندیم آذر