loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

06/08/2025 14:49

میں نے پوچھا کہ یہ کیا حال بنا رکھا ہے

غزل

میں نے پوچھا کہ یہ کیا حال بنا رکھا ہے
نہ تو میک اپ ہے نہ بالوں کو سجا رکھا ہے

چھیڑتی رہتی ہیں اکثر لب و رخساروں کو
تم نے زلفوں کو بہت سر پہ چڑھا رکھا ہے

مسکراتے ہوئے اس نے یہ کہا شوخی سے
ایک دیوانے نے دیوانہ بنا رکھا ہے

جیب غائب ہے تو نیفا ہے بٹن کے بدلے
تم نے پتلون کا پاجامہ بنا رکھا ہے

مشرقی رہن سہن چال و چلن مغرب کا
ہم نے تہذیب کا شیر خرمہ بنا رکھا ہے

گر صلہ دو گے مجھے میری وفاؤں کے عوض
مانگ لوں گا تمہیں انعام میں کیا رکھا ہے

جو سبھی دیکھ چکے ہم وہ نہیں دیکھیں گے
وہ دکھاؤ ہمیں جو سب سے چھپا رکھا ہے

ان کو اغیار محبت سے لگاتے ہیں گلے
مجھ کو اپنوں نے بھی بیگانہ بنا رکھا ہے

زندگی موت کی تمہید ہے پر لوگوں نے
مختصر بات کا افسانہ بنا رکھا ہے

لوگ بھولیں نہ کبھی ایسا تخلص رکھیے
نام تو نام ہے بس نام میں کیا رکھا ہے

قافیے اور ردیفوں و تخلص کے سوا
ؔخواہ مخواہ آپ کے اشعار میں کیا رکھا ہے

غوث خواہ مخواہ حیدرآبادی

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم