میں چاند تاروں کی ضوفشانی کا کیا کروں گا؟
بغیر تیرے میں زندگانی کا کیا کروں گا ؟
تری مُحبت کی ہی ضرورت ہے آج مجھ کو !!
میں بعد مرنے کے نوحہ خوانی کا کیا کروں گا؟
وہ بے دلی ہے کہ کوئی خواہش نہ کوئی ارماں
میں سوچتا ہُوں کہ اِس جوانی کا کیا کروں گا ؟
خزاں رسیدہ شجر کا سایہ ہے میرے اندر
اب ایسی صورت میں گل فشانی کا کیا کروں گا؟
میں جانتا ہُوں کہ ساتھ تیرا کہاں تلک ہے؟
مُجھے پتہ ہے میں اس کہانی کا کیا کروں گا
فیصل محمود