خود ہی خود سے اُلجھ پڑاہوں کیا؟
اپنے اندر اترگیا ہوں کیا ؟
جڑ کے مثل ردیف رہتی ہو
تم غزل ہو میں قافیہ ہوں کیا؟
ہر یزید ی سے میں الجھتا ہوں
ایک سید ہوں، کربلا ہوں کیا ؟
اس قدر جلدی آپ بھول گئے
میں کوئی کل کا حادثہ ہوں کیا؟
کیوں میں بے وقت کی اذانیں دوں
ابتلاوں میں مبتلا ہوں کیا؟
مجھ سے کیوں دور دور رہتے ہو
بہت نزدیک آگیا ہوں کیا؟
کان مجھ پہ لگائے رکھتی ہو
میں کوئی جھمکا کان کا ہوں کیا ؟
جس جگہ جاوں اس جگہ تو ہے
میں ترا دُوسرا ، سِرا ہوں کیا
ایسی بھی بے تکلفی کیسی
تم سے پہلے کہیں ملا ہوں کیا ؟
غیر سا کر رہے ہو برتاو
اپنا اپنا سا لگ رہا ہوں کیا؟
بےجا تنقید وہ بھی غالب پر
یار میں جون ایلیاء ہوں کیا؟
کیوں لڑوں میں نبی کی عترت سے
میں کوئی ابن معاویہ ہوں کیا ؟
کش خوشی میں ہے اتنی گل پاشی
چشم بددور مرگیا ہوں کیا؟
ہر طرف پتھروں کی بارش ہے
یارمفتی میں آئینہ ہوں کیا ؟
ابنِ مفتی سید ایاز مفتی