Main Hawaoon Main agar phool khilana chahoon
غزل
میں ہواؤں میں اگر پھول کھلانا چاہوں
جاں کے صحرا میں ترا عکس جگانا چاہوں
لوگ چہروں کو اندھیروں میں چھپانا چاہیں
میں اندھیروں کو اجالوں سے اُگانا چاہوں
دشمنِ جاں نے تماشا جو دکھایا مجھ کو
میں تماشوں کو دل و جاں میں سجانا چاہوں
تشنہ شعلوں نے ہوائوں میں گذارا موسم
میں تری پیاس کو شعلوں سے بجھانا چاہوں
وہ پرندے جو خلاؤں سے پرے اڑتے ہیں
ان پرندوں کو زمینوں پہ بسانا چاہوں
بات پانی کی نہیں آگ کو پانی کرکے
تیرے احساس کے دریا میں نہانا چاہوں
میں نے دیکھی ہے کہاں ہوش کی دنیا ساربؔ
لوگ کہتے ہیں کہ میں ہوش میں آنا چاہوں
رشید سارب
Rasheed Sarib