loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

08/06/2025 02:18

ناتمام خواہش کی

آنکھ کے علاقے میں
دل کی سرحدوں کے پاس
روح کے کنارے پر
جسم کے دفینے سے
چیختی تمنا کی لاش پھر نکالی ہے
نظم ہونے والی ہے
خوش ہے زخم کی تلخی
ہنس رہی ہے ویرانی
مطمئن ہے تنہائی
مسکرا رہی ہے رات
قہقہوں سے کاٹا دن
باگ ڈور خوشیوں کی رنج نے سنبھالی ہے
نظم رونے والی ہے
دور تک نہیں کوئی
میں بھی خود سے روٹھا ہوں
تو خفا ہے پہلے ہی
خوف کے سہارے سے
لمحہ لمحہ گزرے ہے
وحشتوں کی سنگینی
چشم نم کی ویرانی
لے کے چل رہا ہوں میں
آج دل کے جنگل کی رات کتنی کالی ہے
نظم کھونے والی ہے۔۔۔۔
بےشکن سے بستر پر
لطف خیز لمحوں کے
پرسکون دامن میں
شدت ہوس چاہے
ایک گلبدن ایسا
جس کو چھو کے ہلکا سا
من کے خشک جنگل میں
آگ سی بھڑک اٹھے
کس نے کیا یہ خواہش کی
قرب سے بھرا کمرا
بارشوں کے موسم میں
ملجگے اندھیرے کی
مست خیز غفلت میں
ہوش سے رہا ہو کر
کس کے حسن کی لو سے
اپنے من کی تاریکی
کس نے دور کرنی ہے
نرم گرم بانہوں کا کون پھر سوالی ہے
نظم سونے والی ہے

ڈاکٹر عزیز فیصل

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم