Narwa Hain Shikayateen Saari
غزل
ناروا ہیں شکایتیں ساری
دل کے اندر ہیں وحشتیں ساری
درد سے ہو گیا ہے دل خوگر
بے اثر ہیں اذیتیں ساری
چشم_بینا میں روشنی ہے بہت
کھل گئی ہیں حقیقتیں ساری
جب سے خود کو کیا فنا فی اللہ
مجھ سے کم تر ہیں قیمتیں ساری
اب برابر ہیں زندگانی میں
وصل سب اور فرقتیں ساری
ہاتھ اب کر دئیے کھڑے ہم نے
ترک کر دی ہیں عادتیں ساری
روح کی پیاس بجھ نہیں سکتی
بے وجہ ہیں ضرورتیں ساری
جب غریبی میں پیٹ خالی ہو
جہل ہیں پھر حکایتیں ساری
اب فزوں تر ہیں نفرتیں ثاقب
رائیگاں ہیں محبتیں ساری
رانا افتخار احمد ثاقب
Rana Iftikhar saqib