کتاب۔۔۔ ہم تری آنکھ سے ہجرت نہیں کرنے والے
تبصرہ نگار۔۔ شاہ روم خان ولیؔ ۔۔۔ مردان

جب ہم کسی تخلیقی فن کار کے فکر و فن کا معروضی نکتۂ نظر سے جائزہ لیتے ہیں تو ہمارے سامنے بیک وقت کئی جہات ایک ساتھ روشن ہوجاتی ہیں۔اس کے اندر کی دنیا ، جسے اگر ہم اس کی تخلیقی کائنات کو تشکیل دینے والے ایک اہم عنصر کا درجہ دیتے ہوں ، جب ہمارے مطالعہ کا موضوع بن جاتی ہو تو ہماری نگاہیں ایک بار پھر اس کی اندرونی تہوں کا تجزیہ کرنا شروع کرتی ہیں۔تہہ در تہہ اور پرت در پرت سارے اسرار و رموز کھلتے جاتے ہیں اور اندرون کا پورا خانہ روشن ہوجاتا ہے۔ شاعر کی شخصیت، اس کا تخلیقی جمال ، اس کا جمالیاتی احساس ،اس کے اسلوب اور طرزِ اظہار جیسے کئی موضوعات زیرِ بحث آجاتے ہیں۔یہی نہیں بلکہ اس کا خارج اس کے اندرون کو کس طرح اور کس حد تک متاثر کرتا ہے اور فن کار ان خارجی عوامل کی کس طرح تعبیر و تشریح کرتا ہے؟ یہ بات نہ صرف اس کے اندرون کی تشکیل پر بہت حد تک اثرانداز ہوتی ہے بلکہ طرزِ اظہار اور اسلوبِ بیان بھی اثر پذیری کے اس عمل سے باہر نہیں رہ سکتے۔بعض اوقات تو یوں لگتا ہے کہ شدید خارجی دباؤ فنکار کو ایک ایسے طرزِ اظہار کو اپنانے پر مجبور کرتا ہے جہاں اس کی شخصیت کی طباعی پوری کھل کر سامنے نہیں آتی ہے یعنی اس کا اندرون پوری وسعتوں کے ساتھ جلوہ گر نہیں ہوتا اور فنکار ایک تخلیقی جبر کا شکار نظر آتا ہے۔لیکن شبیر نازش کی شخصیت کی خوبی یہ ہے کہ غمِ دنیا سے دل برداشت ہونے کے بجائے وہ اپنے اندر جینے کا حوصلہ پیدا کرتے ہیں اور اسی امید پر زندگی گزارتے ہیں۔
خیالِ یار ستارہ سا چھو کے کیا گزرا
میں جگمگانے لگا دم بدم قرینے سے
اب کے برس بھی ہم نے تیری یاد سلائی سینے پر
اب کے برس بھی ہم نے تیرے ہجر سے وصل کشید کیا
’’ ہم تری آنکھ سے ہجرت نہیں کرنے والے‘‘شبیر نازش کا دوسرا شعری مجموعہ ہے جو آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی نےشائع کیا۔ اس سے قبل شبیر نازش کا پہلا شعری مجموعہ ’’ آنکھ میں ٹھہرے ہوئے لوگ‘‘ اپنی غزلیات کے سبب صاحبانِ علم اور قارئین میں بے حد مقبول ہوچکاہے۔جس کی بنیادی وجہ ہے کہ شبیر نازش زندگی کے نشیب و فراز کو گہری نظر سے دیکھتے ہیں ۔ ان کے اندر کا وہ آدمی جو سوسائٹی کی ناہمواریوں کو نہ صرف دیکھ رہا ہو بلکہ برداشت بھی کر رہا ہے۔انھیں کبھی کبھی حسن و عشق کے طلسم سے نکال بھی دیتا ہے اور سوسائٹی کے اس کرب کو بیان کرنے کے لیے مجبور ہوجاتے ہیں۔
ایسے سردار کی سرداری نہیں مانتے ہم
جس کا سر اونچا سرِ دار نہیں ہوسکتا
آ گلے مل کے ابھی ہجر کا ماتم کرلیں
کسے معلوم کہاں میل دوبارہ ہوگا
شبیر نازش کی شاعری وارداتِ قلبی کے بیان کی شاعری ہے۔ان کے یہاں تغزل کا رنگ جھلکتا ہے ، رومانیت کا غلبہ ہے،عشق کا اعلان ہے۔وہ عشق چھپاتے نہیں ،برملا اظہار کرتے ہیں۔اس کا دل اور اس میں پوشیدہ عشق، ان کی شاعری میں ہر جگہ رقص کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ان کی شاعری جذبہ کی شاعری ہے ۔احساس کی شاعری ہے ۔جذبہ اور احاس کی شاعری ہی کا نام غزل ہے۔سچ تو یہ ہے کہ شبیر نازش بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں ۔انھوں نے نظمیں ضَرورَتاً، مَصْلَحَتاً یا وقتی تقاضوں کا لحاظ رکھتےہوئے کہی ہیں۔ شبیر نازش نرم گوشہ رکھنے والے شاعر ہیں جو ان کی غزل میں ہی ظاہر ہوتا ہے۔غزل کے اشعار میں وہ بڑی سادگی سے ، دھیمے لہجے میں زندگی کے فلسفے کو بیان کرجاتے ہیں۔زندگی کا ایک نام حسن ہے اور ایک نام عشق ہے۔حسن و عشق کا امتزاج ہی کائنات کو حسین بناتا ہے اور شبیر نازش کی شاعری میں یہ کائنات کا حسن نظر آتا ہے۔ان کے مجموعے میں شاید ہی کوئی ایسی غزل ہو جس میں لفظ ’’ دل ‘‘ استعمال کرکے دل کی کیفیت بیان نہ کی گئی ہو۔اس لیے ان کی شاعری پڑھ کے مجھے محسوس ہوا وہ دل کے شاعر ہیں ۔
اُسی کی بات کرے اور اسی کی بات سنے
ہمارے دل پہ اسی کا اجاراہ لگتا ہے
اک یاد اثر پزیر ہوئی اس طرح کہ بس
دل کا نمک نکل کے نوالے میں آگیا
وہ جن سے دل ملا کرتے ہیں آنکھ ملتے ہی
تو کیوں انھی سے مقدر نہیں ملا کرتے
یہ کس ترنگ میں کیا کیا خیال بنتا ہے
کوئی تو پوچھنے والا ہو دل کمینے سے
دل کسی شخص سے منسوب رہا ، خوب رہا
آنکھ نے اشک گرایا تو مجھے یاد آیا
برنگِ اشک لہو آنکھ سے طلوع ہوا
اگر یہ دل سے بغاوت نہیں تو پھر کیا ہے
شبیر نازش کے یہاں غم کا اظہار بھی دل کو تکلیف نہیں دیتا بلکہ دل کے تاروں سے نکلنے والی ایسی صدا معلوم ہوتا ہے جو فضا کو مسحور کردیتی ہے۔
ہو کے بدنام ترے شہر سے جب ہم نکلے
اشک بھی آنکھ سے کرتے ہوئے ماتم نکلے
میں ترے ہجر میں جی بھر کے جہاں رویا ہوں
کل اسی خاک سے ممکن ہے کہ زم زم نکلے
شبیر نازش اپنے پرخلوص مزاج کے خلاف کسی بھی شناسا کی دانستہ یا غیر دانستہ لغزش کو معاف نہیں کرسکتے۔ان کی نظر میں وہ شخص حسنِ اخلاص کی دہلیز پر قدم نہیں رکھ سکتا جو جان بوجھ کر اپنے دوستوں سے اجتناب برتے یا اس کے جذبۂ دوستی کو غیر ارادی طور پر نظر انداز کردے۔لیکن یہ بھی ایک خوش رنگ حقیقت ہے کہ وہ جسے ایک بار اپنے دل کی گہرائیوں سے چاہنے لگتےہیں اور پسند کرتے ہیں اسے اپنے پردۂ افکار سے مٹانے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ قصر تنہائی کی دیوار پر ان کی تصویر سجاتے ہیں۔
شبیر نازش کی زندگی جد و جہد اور کشمکش میں گزری ہے اور انھوں نے دنیا کو ہر رنگ میں دیکھا ہے اور اس کا باریک بینی سے مطالعہ کیا ہے ۔ان کے اشعارکے آئینے میں تلخ و شیریں مشاہدات و تجربات کے خدوخال بہت صاف دکھائی دیتے ہیں۔
ازل ابد کی گرہیں کھولیں اور یقیں کو تیر کیا
تعبیروں کو خواب بنایا، خوابوں کو تعبیر کیا
چھوڑ کے ساری دنیا داری پاؤں دھرے اک رستے پر
ایک آواز عقب سے آئی اور مجھے زنجیر کیا
بیت گیا وہ وقت وہ لمحے، اب کیا مجھ سے پوچھتے ہو
کس کس رخ پر ہنسی بکھیری ، کس کس کو دل گیر کیا
شبیر نازش کے احساس میں شدت اور شعور کی سلامت روی ہے۔وہ غزل کی روایت سے انحراف نہیں کرتا بلکہ وہ غزل کے جدید رحجان کا نمائندہ ہے۔ وہ اظہار و ابلاغ کےلیے غزل کی روایتی ہیئت کے دائرے میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کو فن کی معراج تصور کرتا ہے۔اس کےلیے وہ زلف و رخسار کے پرانے اندازِ بیاں سےآگے بڑھ کر زندگی کے دیگر مسائل کو غزل ہی میں سمونے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ گوشبیر نازش کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہے دیگر شعرا کے ہاں بھی غزل میں مسائل ِ حیات کے ہمہ جہت رحجان موجود ہیں مگر شبیر نازش کا اپنا منفرد اندازہے۔
آخر میں یہ بھی عرض کردوں کی شبیر نازش کی غزلوں اور نظموں میں بطورِ خاص زبان و بیان کو ایک اہم مقام حساصل ہے اور اسی لیے موسیقیت ان کا شاعری کا جزوِ لاینفک ہے۔میں شبیر نازش کے دوسرے شعری مجموعے ’’ ہم تری آنکھ سے ہجرت نہیں کرنے والے‘‘ کا خیرمقدم کرتا ہوں اورمیری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیائے ادب میں ان کی تخلیقات کو عمرِ دوام عطا فرمائے اور قارئین و سامعین کے ذہنوں میں محفوظ رکھے ۔۔۔آمین
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
شاہ روم خان ولیؔ