نالۂ جان خستہ جاں عرش بریں پہ جائے کیوں
میرے لئے زمین پر صاحب عرش آئے کیوں
۔
نور زمین و آسماں دیدۂ دل میں آئے کیوں
میرے سیاہ خانے میں کوئی دیا جلائے کیوں
۔
زخم کو گھاؤ کیوں بناؤ درد کو اور کیوں بڑھاؤ
نسبت ہو کو توڑ کر کیجئے ہائے ہائے کیوں
۔
بخشنے والا جب مرا عفو پہ ہے تلا ہوا
مجھ سا گناہ گار پھر جرم سے باز آئے کیوں
۔
امجدؔ خستہ حال کی پوری ہو کیوں کر آرزو
دل ہی نہیں جب اس کے پاس مطلب دل بر آئے کیوں
امجد حیدر آبادی