loader image

MOJ E SUKHAN

19/04/2025 18:42

ناول میں سماجی شعور کی کارفرمائی

  • ثمر کبیر

  • سرشار: فن اور شخصیت

            ناول کا آغاز اس وقت ہوا جب انسانی سماج نے ترقی کی ایک خاص منزل طے کرنے کے بعد اصطلاحاً دور جدید میں قدم رکھا۔ افسانوی ادب کے نقوش اولین داستانیں اور قصے ہیں۔ ان کا زندگی کی حقیقت سے کوئی راست تعلق نہیں تھا۔ ان کے واقعات فوق الفطرت، کردار مثالی اور فضا خیالی ہوتی تھی۔ ناول زندگی کو اس کے اصل خدوخال کے ساتھ پیش کرنے کا مقصد لے کر سامنے آیا۔ اگرچہ ہمارے بعض ناول اس خصوصیت سے عاری ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار نا ممکن ہے کہ ناول کی نشو نما زندگی کا سچا شعور پانے اور اس کے حقائق و مسائل سے عہدہ بر آہو ہونے کے مقصد کے تحت ہوئی۔ گویا ناول زندگی کے حقیقی نقوش کو اس کے اصل مدعا کے ساتھ پیش کرتا ہے۔

            ناول نگار کو زندگی کے جو حقیقی نقوش اور واقعات دستیاب ہوتے ہیں وہ اس کے اطراف کی زندگی سے ملتے ہیں۔ اس لئے ناول نگار کا مشاہدۂ حیات جتنا تیز اور گہرا ہو گا اس کے نقوش اتنے ہی حقیقت سے قریب ہوں گے۔ تاریخی ناولوں میں بعض اوقات کئی کئی سو سال پہلے کی زندگی کو پیش کیا جاتا ہے۔ اس وقت ناول نگار اپنے ہی اطراف کی زندگی سے استفادہ کرنے پر مجبور نظر آتا ہے اور بعض وقت کامیاب اور اکثر ناکام کوشش اس بات کی کرتا ہے کہ اپنے اطراف کی زندگی کو انکے قدیم زمانے کے لباس میں پیش کرے۔ جہاں تک انسانی جذبات، احساسات اور تصورات کی ترجمانی کا تعلق ہے، وہ اپنے عہد کے انسان کے مطالعے سے ہی رہبری پاتا ہے۔ چنانچہ تاریخی ناولوں میں سرشار کا فن اس میر اجمال کی روشن تفصیل بھی ہے اور یہ ایک فطری بات بھی معلوم ہوتی ہے۔ میز انیس کے مرثیوں پر اکثر یہ اعتراضات کیے گئے کہ وہ اپنے عہد کی زندگی اور ہندوستانی معاشرے کے رنگ میں اپنے مرثیے کے کرداروں کو رنگ دیتے ہیں۔ لیکن انیس حقائق کے دباؤ سے مجبور تھے اور انھوں نے جو کچھ کیا وہ ان کے لیے ایک فطری بات تھی۔

            یہ حقیقت ہے کہ ناول خواہ کسی نوعیت کا کیوں نہ ہو انسان کو پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ انسان جو ایک سماجی حیوان ہے جس کی پرورش اور نشو نما سماج میں ہوتی ہے اور سماج ہی کے عناصر سے اس کی ذہنی، انفرادی اور تہذیبی زندگی کا خمیر بنتا ہے۔ اگر ناول حقیقی معنوں میں ناول ہے تو وہ اپنے آپ کو اپنے عہد کی سماجی زندگی کے نقوش سے بیگانہ نہیں رکھ سکتا۔ اس لیے بعض نقادوں نے سماجی ناول کے دائرے میں سارے ہی زاویوں کو شامل کرنا مناسب سمجھا ہے۔ ان کی نظر میں تاریخی، سیاسی، غرض ہر موضوع کے ناول سماجی ناول کے دائرے سے خارج نہیں ہیں۔ سماج ایک حاوی قوت محرکہ ہے اسے تقسیم نہیں کیا جا سکتا، سماج کا زیرک انسان ہے۔ سماج کا وجود انسان ہے اور سائنس، تاریخ، سیاست، غرض ہر علم و فن انسانی زندگی کے لئے انسان کے ذریعے نشو و نما پاتا ہے۔ اس لحاظ سے تاریخی، سماجی، نفسیاتی، سیاسی کسی نوعیت کا ناول کیوں نہ ہو اس کے واقعات اس کے کردار اپنے مخصوص ماحول اور سماج کی عکاسی کرتے ہیں۔ حقیقت میں سماج کا ڈھانچہ انسان کی زندگی اور اس کی ضرورتوں اور تقاضوں سے تیار ہوتا ہے اور نشو نما پاتا ہے۔ کوئی انسانی علم، فکر کا کوئی پہلو اور خیال کا کوئی شائبہ سماج سے خارج نہیں ہو سکتا۔ ہر علم اور ہر فن انسان کے لئے اور ان کا موضوع انسان عینی سماجی حیوان ہے۔

            اس حقیقت کی روشنی میں جو لوگ ناول کو سماجی مانتے ہیں وہ صحت سے دور نہیں تاہم سماجی اور دوسری نوعیت کے ناولوں میں ایک حدِ فاصل ضرور ہوتی ہے۔ ہم سماجی ناول صرف اسی ناول کو کہہ سکتے ہیں جس میں براہ راست سماجی مسائل سے بحث اور جس سے ہماری روزمرہ زندگی کے طور طریقوں اور ہمارے طرز عمل پر روشنی پڑتی ہو۔ سماجی ناول کی اس طرح حدبندی کرتے ہوئے ہم یہ دیکھیں کہ سماجی ناول حقیقت میں کیا ہے اور اس کے فنی تقاضے اور ترکیبی عناصر کیا ہیں۔ سماجی ناول کے اصولوں کی تعئین اور حد بندی کی اب تک بہت کم کوشش کی گئی ہے۔ عام ناولوں کے فنی اصولوں پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان سے کہیں کہیں سماجی ناول کے خدوخال پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ خود سماجی ناولوں کے مطالعے اور تجزیے سے بھی انکی فنی خصوصیات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

            اس بحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ناول کا زندگی سے بڑا گہرا تعلق ہے اور ناول کے ذریعہ زندگی کی حقیقت کو بھرپور طریقے سے پیش کیا جا سکتا ہے اسی لیے ناول کو جدید دور کا رزمیہ کہا گیا ہے۔ گویا ناول نگار رزمیہ کی طرح اپنے عہد کی زندگی کو وسیع طریقہ پر اس کے جزئیات کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی لیے ہم ناول کی جامع اور قطعی تعریف نہیں کر سکے۔ ناول زندگی کا عکس ہوتا ہے۔ زندگی کی ہر تبدیلی، ہر خوبی، ہر رنگ ناول میں جھلکتا ہے۔ گویا زندگی اور ناول کا رشتہ شخص اور عکس کے رشتے کے مانند ہے۔ جس طرح زندگی کے حدود مقرر نہیں کئے جا سکتے اسی طرح ناول اور اس کے فن کے اطراف بھی کوئی حصار باندھا نہیں جا سکتا۔

            فارسٹر نے بھی ناول کی تعریف کی تو اس کی سخت حد بندی کی کوشش نہیں کی بلکہ وسیع اور غیر عمومی احاطہ اس کے اطراف کھینچ دیا۔ وہ لکھتا ہے کہ ’’ناول کسی طول کا افسانہ ہے اور اس کی وضاحت اس طرح ناول تین طرف سے گھرا ہوا ہے۔ اس کے ایک طرف تاریخی سلسلۂ کوہ ہے۔ دوسری طرف شاعری کا کوہسار ہے اور تیسری جانب سمندر ہے ‘‘۔

            فورسٹر نے نہ صرف ناول کی تعریف میں وسعت پیدا کی بلکہ وہ اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ اس کی حد بندی نہیں کی جا سکتی۔ پرسی لیبک نے ناول کو ’’زندگی کی تصویر یا زندگی کی شبیہ کہا ہے ‘‘۔  اس طرح ہمیں ناول میں زندگی کا عکس نظر آتا ہے۔ جے۔ بی پریسٹلی نے اپنی تصنیف ’’دی انگلش ناول‘‘ میں اس کی تعریف یوں کی ہے۔

            ’’ناول ایک بیانیہ نثر ہے جس میں کرداروں اور واقعات سے سروکار ہوتا ہے۔    بعد میں یہ تعریف اس کو ناقص نظر آئی کیوں کہ اس میں داستانوی یا رومانی فضا ہی غالب نظر آ رہی تھی اور اسے یہ واضح کرنا تھا کہ ناول زندگی کا عکس ہوتا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنی تعریف کی وضاحت اس طرح کی۔ ’’یہ زندگی کا بڑا آئینہ ہے جو کسی بھی صنف ادب سے زیادہ وسعت رکھتا ہے ‘‘۔  تو زندگی کی حقیقی تصویر بھی غیر حقیقی محسوس ہو گی۔ اگر ناول نگار ان چیزوں کو پیش کرے جو غیر معمولی ہیں یا جن سے ہمارا واسطہ شاذ و نادر سہی پڑتا ہے یا جو بہت کم دیکھی سنی جاتی ہیں۔ زندگی میں محیرالعقول واقعات یا سمجھ میں نہ آنے والے واقعات باور تو کئے جا سکتے ہیں لیکن وہ مسلسل یا ایک ہی وقت میں یاکسی ایک ہی کردار کی زندگی میں پیش نہیں آتے اور نہ آسکتے ہیں۔ اس لیے ناول کو حقیقت کے دائرے میں رکھنے کے لیے کلاراریو نے اپنی تصنیف ’’دی پروگرس آف رومانس‘‘ میں ناول کی تعریف یوں کی ہے۔

’’ناول ہماری روزانہ زندگی میں آنکھوں کے سامنے گزرنے والی باتوں کے مانوس ربط کو پیش کرتا ہے۔

            جس طرح انسانی زندگی میں تسلسل ہوتا ہے اور اس کا سلسلہ بے ربط واقعات کے مربوط ہونے سے آگے بڑھتا ہے اسی طرح ناول میں اس ربط کو پیش کرنا ضروری ہوتا ہے۔ کیونکہ ہم واقعات میں ربط و ترتیب کے عادی ہوتے ہیں۔ زندگی و عمل کے سہارے چلتی ہے اور ان کو اپنے حقیقی رنگ میں پیش کرنے سے ناول ناول بنتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ناول میں زندگی کے جن واقعات کو پیش کیا جاتا ہے وہ ہماری جانی پہچانی اور قریبی دنیا سے الگ نہ ہوں اور ہمارے لیے ناول کی دنیا غیر مانوس نہ ہو۔ ہارڈی کی ناول نگاری پر تنقید کرتے ہوئے ڈیوڈ سیل رقمطراز ہے :

            ’’ناول اس حد تک فن کا کارنامہ ہے جہاں تک وہ ہم کو زندہ دنیا سے متعارف کراتا ہے۔ جو بعض اعتبار سے ہماری اپنی دنیا سے مشابہ ہوتی ہے اور جو اپنی ایک انفرادیت بھی رکھتی ہے۔

            اس طرح ناول نگار اپنے ناول میں ایک دنیا آباد رکھتا ہے اس دنیا میں سبھی انسان بستے ہیں او اپنے اپنے سماجی ماحول میں بستے ہیں۔ زندگی کی ہل چل کے ساتھ ناول کی دنیا کی چہل پہل بھی انسانوں کے دم سے ہے۔ گو ’’یہ افسانوی انسان ‘‘ یعنی کردار انسان تو نہیں ہوتے لیکن انھیں انسان جیسا ہونا چاہیئے۔ اس لیے ای۔ ایم فورسٹر نے یہ بھی ضروری سمجھا ہے کہ :

’’قصوں کا مواد اور کرداروں کی سیرتیں ہماری سیرتوں سے اس قدر مشابہ ہوں کہ ہم ان میں اپنے روزانہ کے ملنے والوں کو شناخت کر سکیں ‘‘۔

            فورسٹر ناول کے لیے حقیقت نگاری کو ضروری قرار دیا ہے۔ اور ناول کے ہر لحاظ سے حقیقت کے قریب ہونے کا مطلب یہی ہے کہ اس میں سماجی زندگی کا عکس ہو۔ قصے اور کرداروں کی پیش کش میں بھی اگر یا کردار میں کسی بات کی کمی رہ جاتی ہے تو وہ ناول ک نقص بن جاتی ہے۔ اس حقیقت کی روشنی میں ایچ۔ جی۔ ویلز نے ناول کی تعریف یوں کی ہے۔

            ’’ہر اچھے ناول کی پہچان اس کی حقیقت نگاری ہے۔ اس کی غرض زندگی کی نمائش ہے۔ اس کی حقیقی زندگی اور سچے واقعات پیش کرنے چاہئیں نہ کہ ایسی زندگی اور ایسے واقعات جو کتابوں سے لیے گئے ہوں۔ ‘‘

            اس کے علاوہ وہ ناول کے لئے درست مشاہدے اور جدت خیال کی شرط بھی لازمی قرار دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ناول نگار اپنے اطراف کی سماجی زندگی سے ہٹ کر مشاہدہ نہیں کر سکتا۔ چنانچہ تاریخی ناول نگار بھی اپنے زمانے سے ہزار پانچ سو سال پہلے کے واقعات بیان کرتے ہوئے اس زمانے کے انسانوں کو اپنے ہی زمانے کے انسانوں کو روپ میں دیکھتا۔

            آرنلڈبینٹ بھی ویلز کا ہم خیال ہے اور ناول میں زندگی کے غائر مطالعہ کو لازمی قرار دیتا ہے۔ اور محض غائر مطالعے ہی کو کافی نہیں سمجھتا بلکہ اپنے مشاہدے کے نتائج سے اثر قبول کرنے کو بھی ضروری قرار دیتا ہے وہ لکھتا ہے :

’’ناول نگار وہ ہے جو زندگی کا غائر مطالعہ کرے اور اس سے اس قدر متاثر ہو کہ اپنے مشاہدے کا حال دوسروں سے بیان کیے بغیر نہ رہ سکے اور اپنے جذبات کے اظہار کے لیے قصہ گوئی کو سب سے زیادہ موزوں اور مناسب ذریعہ اور آلہ سمجھے ‘‘۔

            آرنلڈ کی نظر میں سماجی زندگی کی حقیقی پیش کش ہی سماجی زندگی کا اصل آئینہ ہے۔ کیوں کہ ناول نگار اپنے وقت کی سماجی زندگی ہی کا غائر مطالعہ کر سکتا ہے اور اس سے متاثر بھی ہو سکتا ہے نیز اپنے مشاہدات کو اوروں تک پہنچا سکتا ہے۔ اس لیے کلا راویو نے ناول کی تعریف اس طرح کی ہے :

’’ناول حقیقی زندگی اور اس کے طور طریقے کی اور اس زمانے کی تصویر ہو بہو ہے۔

سر والٹر ریلے بھی اپنے وقت کی سماجی زندگی کو پیش کرنا ناول کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ ناول کا موضوع روزانہ زندگی پر مبنی ہوتا ہے اور اس کا ذریعہ حقیقت نگاری ہے۔ ‘‘

            ناول میں روزانہ زندگی اور حقیقت نگاری کی شرط ناول نگاری کو وہ اپنے زمانے کی سماجی زندگی کو پیش کرے۔ اس لیے انگریزی ادب کے مورخ و ناقد پروفیسر اے۔ بیکر ناول کی تعریف یوں کرتے ہیں :

’’ناول نثری قصے کے ذریعے انسانی زندگی کی ترجمانی کرتا ہے۔ وہ بجائے ایک شاعرانہ و جذباتی نظریہ حیات کے ایک فلسفیانہ سائنٹفک یا یہ کہیئے کہ ایک ذہنی تنقیدِ حیات پیش کرتا ہے۔ نثر میں نہ ہون، حقیقی زندگی کو ہو بہو تصویر، اس کے مشابہ نہ ہو اور ایک خاص ذہنی رجحان کے زیر اثر اس میں ایک طرح کی یک رنگی اور ربط موجود نہ ہو‘‘۔

            پروفیسر اے بیکر نے ناول میں انسانی زندگی کی ترجمانی ’’ذہنی تنقید حیات‘‘ اور حقیقی زندگی کی ہو بہو تصویر‘‘ کو ضروری قرار دیا ہے۔ مگر اس کی تکمیل اسی وقت ہو سکتی ہے جب ناول نگار اپنی سماجی زندگی سے ناول کے لیے مواد جمع کرتا ہے۔ لیکن اس جمع شدہ مواد کو پیش کرنا بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ ہر ادیب اپنے اطراف کے سماجی ماحول سے متاثر ہوتا ہے اور کسی نہ کسی حد تک سماجی زندگی کے کسی نہ کسی پہلو یا حقیقت کو پیش کرتا ہے۔ اس لیے ناول نگار کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے مواد کو ایک خاص صورت اور خاص ہئیت میں پیش کرے۔ اس لیے مشہور امریکی نقاد اور ناول نگار پروفیسر وھارٹن نے ناول کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ناول ایک ایسے قصے کا بیان ہے جس میں ایک پلاٹ ہو۔

            اٹھارویں صدی کا انگریزی ناول نگار اسمولٹ ناول میں پلاٹ کے ساتھ کردار کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کرتا۔ اس کے خیال میں ناول ایک بڑی پھیلی ہوئی تصویر ہوتی ہے جس میں ایک مقررہ پلاٹ کو واضح کرنے کے لیے زندگی کے کردار مختلف جماعتوں کے ساتھ رکھ کر مختلف پہلوؤں سے دکھائے جاتے ہیں۔

            اس تعریف کی رو سے ناول کے عناصر میں پلاٹ کے علاوہ مقصد و معنی اور دیگر عناصر کا ہونا بھی ضروری ہے۔ مثلاً یہ کہ ناول میں زندگی کی عمومی اور وسیع تصویر پیش کی جانی چاہیئے۔ ناول کو تصویر کہنے سے اس کے دوسرے جہات یعنی مناظر، زمان و مکاں، نظریۂ حیات اور اسلوب بیان بھی اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ کیوں کہ کوئی بھی تصویر اپنے پس منظر کے بغیر نہیں ابھرتی اور جب ناول کو زندگی کی تصویر کیا جائے تو اسی میں مناظر کے علاوہ زمان و مکاں بھی شامل ہو جاتے ہیں۔

            جس طرح مصور اپنی تصویر کے ذریعہ اپنا مقصد یا نظریہ پیش کرتا ہے اسی طرح ناول نگار بھی زندگی کی تصویر کھینچتے ہوئے اپنا نظریہ پیش کرتا ہے۔ رہا اسلوب بیان تو جس طرح ہر مصور اپنا ایک طرز مصوری رکھتا ہے اسی طرح ہر ناول نگار کے پاس اپنا یک اسلوب بیان بھی ہوتا ہے۔

            مذکورہ بالا تعریفوں میں ناول کے ایک اور اہم عنصر یعنی مکالمہ کا تذکرہ نہیں آیا۔ ناول بیان کرنے کا آرٹ نہیں ہے بلکہ اس کے اشخاص اور ان سے سر زد ہونے والے افعال کے تعلق سے مکالمہ بھی ایک لازمی چیز ہے۔ علی عباس حسینی نے جہاں ناول کے عناصر پلاٹ، نظریہ حیات، کردار، منظر نگاری، زمان و مکان اور اسلوب بیان بتائے ہیں وہیں مکالمہ کی فنی قدر و قیمت بھی واضح کی ہے :

’’ناول کا چوتھا عنصر مکالمہ ہے۔ یہ ناول نگار کے ہاتھ میں اظہار خیال کا بہترین آلہ ہے اور اس سے باقاعدہ فائدہ اٹھانا بہت بڑا کام ہے۔ مصنف اپنے کرداروں کی زبان سے جو کچھ اس کا جی چاہے وہ ادا کرا دیتا ہے۔ اس کا صحیح اور بروقت استعمال بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس لیے کہ تصویر کشی سے ڈرامہ ہمیشہ زیادہ دلچسپ ہوتا ہے اور مکالمہ دراصل ڈراما ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سقراط نے اصلاحِ قوم کی کوشش کی تو اسی کے ذریعے، افلاطون نے اپنی جمہوریت لکھی تو اسی طرز میں اور برکلے نے اپنا فلسفہ سمجھایا تو اسی آلے سے حقیقت یہ ہے کہ چست فقرے اور برجستہ جملے یہیں کام آتے ہیں۔ اور اسی لیے جب تک وہ مصنف جدید الذہن نہ ہو اور اس میں جدت کا مادّہ نہ ہو، اس فن میں کامل نہ ہو گا‘‘۔

            علی عباس حسینی نے ان عناصر کے ذیل میں ناول کا ایک اور اہم عنصر یعنی کہانی یا قصہ کو چھوڑ دیا ہے۔ لیکن یہ بات اس لیے نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ چونکہ ناول بغیر کہانی کے پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ اس لیے غالباً اس کا ذکر ضروری نہیں سمجھا گیا۔ تاہم ایک وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ پلاٹ اور کہانی دونوں ایک نہیں ہیں اس لیے ای۔ ایم۔ فورسٹر نے ناول کے تذکرے میں کہانی کو ضروری سمجھا ہے۔ فورسٹر کہانی کو ناول کا اہم اور بنیادی پہلو قرار دیتا ہے۔ اس کا کہنا ہے :

            ’’ وہ کہانی ناول میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہوتی ہے ‘‘۔

            اس نے اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ کہانی انسان کے جذبہ تجسس سے کام لے کر ایک تانا بانا بناتی ہے۔ کسی بھی چیز کو جاننے اور اس کے انجام کو دریافت کرنے کی خواہش انسان میں فطری ہوتی ہے۔ فورسٹر کے مطابق ہم سب الف لیلہ کے متجسس بادشاہ کی طرح یہ جاننے کے لیے قرار رہتے ہیں کہ کہ ’’پھر کیا ہوا‘‘ پلاٹ کے ارتقا کے ساتھ ہمارے ذہین میں جو سوال ابھرتا ہے وہ یہ کہ ’’ایسا کیوں ہوا؟‘‘ فورسٹر نے اس کیوں ’’اور کیا‘‘ کی تشریح کے لیے ایک کہانی اور ایک پلاٹ بطور مثال اپنے مخصوص ایجادی انداز میں پیش کیا ہے۔

کہانی :’’ راجہ کا انتقال ہوا اور پھر رانی کا‘‘

پلاٹ : راجہ کا انتقال ہوا اور راجہ کے غم سے رانی کا انتقال ہو گیا۔ ‘‘

            پلاٹ اور کہانی کے درمیان جو نازک فرق ہے اس کو ایسے بلیغ انداز میں فورسٹر کے علاوہ شاید ہی اور کوئی سمجھ سکا ہو۔ اس نازک فرق کے پیش لفظ فورسٹر ناول میں پلاٹ کے ساتھ کہانی کو بھی بے حد اہمیت دیتا ہے اور کہانی کو پلاٹ سے الگ عنصر قرار دیتا ہے۔ مذکورہ بالا تفصیلات کے پیش نظر ہم ناول کے عناصر ترکیبی حسب ذیل قرار دے سکتے ہیں :

(۱)قصہ پن (۲) پلاٹ (۳) کردار (۴) ماحول (۵)مناظر (۶) زمان و مکاں  (۷) نظریۂ حیات (۸) اسلوبِ بیان

            ’’ناول کیا ہے ؟‘‘ کے مرتبین  بھی اس ناول کے یہی عناصر بتلاتے ہیں۔ انھوں نے ناول کے عناصر کی تفصیل اس طرح دی ہے :

(۱)قصہ پن(۲) پلاٹ(۳) کردار نگاری(۴) ماحول (۵)مکالمہ(۶) بیان(۷) جذبات نگاری(۸) فلسفۂ حیات(۹)ٹکنیک یا فن کاری(۱۰)زبان

            قصہ پن سے ان کی مراد یقیناً فورسٹر کی کہانی سے ہے۔ مذکورہ بالا عناصر ہر ناول میں مل جاتے ہیں۔ یہ عناصر تاریخی ناول سے لے کر سماجی ناول تک کسی بھی قسم کے ناول میں ہو سکتے ہیں۔ لیکن ان عناصر کے ہونے سے نہ ہر تاریخی ناول، تاریخی ناول بن جاتا ہے نہ ہر سماجی ناول، سماجی کہلایا جا سکتا ہے۔

            ناول کے عناصر کا ایک اور تجزیہ پروفیسر عبدالقادر سروری نے اپنی کتاب سب سے زیادہ حاوی کتاب ہے۔ اس میں ناول کے اجزائے ترکیبی حسب ذیل ہیں :

(۱)اشخاص قصہ(۲) پلاٹ(۳) مکالمے (۴)مقصد یا فلسفۂ حیات(۵)اسلوب بیان(۶)زمان و مکاں۔

            اس آخری جز کی تفصیل یہ ہے کہ ناول نگار خلا میں نہیں لکھ سکتا۔ اسے ایک طرف تو زمانے کی قید مجبور کرتی ہے کہ وہ انکے نقوش واضح اور کسی حد تک مفصل پیش کرے اور دوسری طرف یہ بھی ضروری ہے کہ ناول کسی مخصوص مقام کو پیش کرے۔ ناول میں ’’کسی ملک میں تھا کوئی بادشاہ‘‘ جیسے بے سروپا بیانات سے کام نہیں چل سکتا۔ یہیں سے ناول سماجی اثرات کے ما تحت آ جاتا ہے۔

            ہم ان مختلف تجزیوں میں سموئے ہوئے مشترک عناصر کو لے لیں تو اختلافات بہت کم رہ جاتے ہیں۔ مثلاً پلاٹ، کردار یا اشخاص، مکالمہ اور مقصد یا فلسفہ حیات سب تعریفوں کے مشترک اجزاء ہیں۔ ان سے ہٹ کر ایک اہم جزو کہانی ہے جس پر فورسٹر نے بہت زور دیا ہے۔

            جہاں تک دیگر فنی عناصر کا تعلق ہے۔ ناول اور اس کی قسموں پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ لیکن زمان و مکاں کی قید وہ مرحلہ ہے جہاں سے ناول کی قسمیں بن جاتی ہیں اور انکے درمیان فرق محسوس ہونے لگتا ہے۔ یہیں سے سماجی اور دوسری نوعیت کے ناولوں کے درمیان امتیاز شروع ہو جاتا ہے۔

            یہ حقیقت ہے کہ سماجی ناول کا رشتہ زندگی بالخصوص اجتماعی زندگی سے بہت گہرا ہوتا ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اگر کسی تاریخی، نفسیاتی یا فلسفیانہ ناول میں سماجی مسائل کو پیش کیا گیا ہو تو وہ ناول سماجی کہلائے گا۔ مثال کے طور پر انا طول فرانس کے مشہور ناول ’’تائیس‘‘ کو لیا جا سکتا ہے۔ اس ناول کا پس منظر تاریخی بلکہ آثارِ قدیمہ سے متعلق ہے۔ چنانچہ ’’تائیس‘‘ کے انگریزی ترجمے کے ایک مرتب مونکس ہڈنے لکھا ہے ’’یہ در حقیقت عہد قدیم کی بازگشت ہے۔ ‘‘

            انا طول فرانس نے تائیس میں دوسری صدی عیسوی کی زندگی کو پیش کیا ہے۔ مونکس کے کہنے کے مطابق اس میں شہروں، محلوں، فلسفیوں، ایکڑلیسوں اور ناچنے والوں کی جیتی جاگتی تصویریں پیش کی گئی ہیں۔ اس طرح یہ ناول زندگی سے بھر پور نظر آتا ہے۔ اس کو پڑھتے ہوئے اس زمانے کی سماجی زندگی کی تصویر ہماری آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے۔ ناول نگار کا کمال یہ بھی ہے کہ اس نے بعض سماجی مسائل کو اس انداز سے ابھارا ہے کہ پڑھنے والے کے لیے ’’تائیس‘‘ کے واقعات باوجود اپنے تاریخی پسِ منظر کے قصہ پارینہ بن کر نہیں رہ جاتے بلکہ ہر زمانے کا پڑھنے والا ناول میں پیش کردہ سماجی مسائل کے متعلق سوچنے لگتا ہے۔ ان مسائل میں سے بعض یقیناً سماجی، نفسیاتی ہیں اور بعض ایسے ہیں مکمل طور پر انسان کی سماجی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ سماجی ناول کی ایک اہم شرط یہ ہے کہ اس میں سماجی مسائل اور حقائق کو اس طرح اجاگر کیا جائے کہ پڑھنے والے کی توجہ ان کی طرف مبذول ہو جائے۔

            تائیس کے مطالعے سے قاری کا ذہن لازمی طور پر سماج کے اس مسئلے کی طرف جاتا ہے۔ جس کا تعلق انسان کے چند بنیادی فطری تقاضوں سے ہے اور ترقی سے انسان اپنی تشفی چاہتا ہے۔ اگر ان تقاضوں سے کو کسی وجہ سے پورا نہ کیا گیا اور انھیں دبانے کی کوشش کی گئی تو پھر وہ اتنی شدت سے ابھرتے ہیں کہ انسان ان کے ہاتھوں بالکل کھلونا بن جاتا ہے۔ اس ناول کا ہیرو بھی محبت اور جنسی جذبے کے فطری تقاضے کو دبانے کی کوشش میں اپنی زندگی کو دوزخ بنا لیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی جب ناول کی ہیروئن تائیس کی طرف اس کا ذہن منتقل ہوتا ہے تو قاری ایک دوسرے سماجی مسئلے کے متعلق سوچنے لگتا ہے کہ عیسائی راہبوں کی نفس کشی اور روحانی ریاضت ایک ڈھکوسلا ہے۔ تائیس کے کردار کی نشو و نما میں ناول نگار اپنے نقطہ نظر کو پیش کرتے ہوئے اس بات کی بھی وضاحت کرتا ہے کہ انسانی مزاج میں نیکی اور بدی کا جذبہ قدرت کا عطیہ ہے۔ تائیس کی طبعیت قدرتی طور پر نیکی کی طرف مائل تھی اور طبیعت کا رجحان بھی ہمیشہ اسے نیکی کی طرف مائل کرتا رہا۔ اس کا بچپن ایک بھٹیار خانہ میں گزرا تھا جس میں صرف شرابی، جواری رہتے تھے۔ اس کا باپ خود شرابی تھا اور ماں بے حد بدمزاج، لیکن تائیس ایک عیسائی غلام احمس کی رفاقت میں سکون پاتی ہے۔ احمس تائیس کو عیسائیت کی تلقین کرتا ہے۔ یہاں ناول نگار ایک اور سماجی نکتے کی طرف اشارہ کرتا ہے وہ یہ کہ ابتدائی عمر میں انسان جو تعلیم پاتا ہے اس کے نتائج بڑے دور رس ہوتے ہیں۔ تائیس کی پرورش بعد میں ایک نائکہ کرتی ہے۔ جس کے نتیجے میں تائیس رقاصہ بن جاتی ہے۔ تائیس کو عزت، شہرت دولت، غرض سب کچھ حاصل ہو جاتا ہے لیکن وہ اس زندگی کے مطمئن نہیں ہوتی۔ اس کے دل میں ہمیشہ خلش سی رہتی ہے۔ وہ نیکی کے ذکر یا مذہبی باتوں میں یک گونہ سکون پاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نفیوترس جب اسکندریہ آ کر اسے حیات عقبیٰ کی دعوت دیتا ہے اور راہبانہ زندگی گزارنے پر اکساتا ہے تو وہ فوراً رضا مند ہو جاتی ہے اور سالہا سال سے جس زندگی کو اختیار کئے ہوئے تھی اسے یکلخت ترک کر دیتی ہے۔ تائیس کا دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنا ہم کو قطعی غیر فطری نہیں معلوم ہوتا کیوں کہ ناول نگار نے سماج اور فطرت کے رد عمل اور سماج، زندگی اور شخصیت کے گہرے تعلق کو ہر جگہ پیش نظر رکھا ہے۔ نضپوترس کے کردار کا ارتقا فطری طور پر کسی نیک سیرت عورت کا اس طرح رقاصہ بن جانا ایک سماجی مسئلہ ہے۔ غیر محتاط سہی لیکن غیر فطری نہیں۔ نفپوترس کی تعلیم اس وقت کے مروجہ طریقے پر ہوئی تھی وہ سماج کے اونچے طبقے سے تعلق رکھتا تھا آغاز شباب میں نفیوترس تائیس پر ایک طرح سے فریفتہ بھی تھا۔ ایک دن اس نے تائیس سے ملنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن بازار حسن کی راہ درسم سے ناواقف ہونے کی وجہ سے لوٹنا پڑا تھا۔ بعد میں وہ راہبانہ زندگی بسر کرنے لگا لیکن تائیس کا خیال دل سے بھلا نہیں سکا۔ ناکام محبت اور رہبانیت میں جو نفسیاتی رشتہ ہے وہ ہم جانتے ہیں۔ بہر حال پفوترس زندگی بھر نفسیاتی دھوکوں کا شکار رہا۔ چنانچہ تائیس کو گناہ کی زندگی سے نکالنے کے لیے اسکندریہ آتا ہے اور اپنی کوشش میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔ لیکن یہی دراصل اس کی سب سے بڑی شکست ثابت ہوتی ہے۔ آخر میں تائیس تارک دنیا بن جاتی ہے اور پفنوترس تائیس کی محبت میں عیسائیت اور خدا سے بیزار اور منکر ہو جاتا ہے اس طرح یہ کردار ایک سوالیہ علامت کی صورت قاری کے ذہن سے چپک کر رہ جاتا ہے۔ نفسیاتی شخصیتوں سے نا آشنا قاری یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ تائیس کیوں راہبہ ہوئی اور کس طرح نیکی اس کی رگ و پے میں سرایت کر گئی اور پفنوترس کیوں خدا اور مذہب سے برگشتہ ہو گیا اور اس طرح قاری کا ذہن فطرت انسانی اور سماجی قوت کے تانے بانے پر غور کرنے لگتا ہے اور ان قوتوں کا تجزیہ کرنے لگتا ہے جو انسانوں کو نیکی اور بدی کے راستوں پر دھکیل دیتی ہیں سماج میں نیکی اور بدی کی کشمکش نیکی اور بدی کی قوتوں کا ٹکراؤ اور تصادم ناول میں اس طرح اور اسی قوت سے نمایاں کیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کی توجہ کسی دوسری طرف مرکوز نہیں ہوتی۔ تائیس اس نکتے کی عمدہ مثال ہے کہ ناول کا تاریخی پہلو کس طرح قطعی ثانوی اور غیر اہم ہو کر رہ جاتا ہے اور ناول کی سماجی حیثیت ہی سب کچھ بن جاتی ہے اور یہی سماجی ناول کی سب سے اہم اور نمایاں خصوصیت ہے کہ اس کا سماجی پہلو ہی مرکزِ توجہ بن جائے اور دوسرے تمام پہلو ثانوی حیثیت اختیار کر لیں۔

اس تجزیے کے ساتھ یہ نکتہ بھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ وہ تاریخی ناول جن کا تاریخی پہلو روشن اور نمایاں ہو۔ سماجی ناول نہیں کہلاتے۔ اس کی ایک روشن مثال عبدالحلیم شرر کا مشہور ناول۔ ’’فردوس بریں ‘‘ ہے۔ ۔ یہ ناول ساتویں صدی ہجری کے زمانے کے بعض مخصوص حالات کو پیش کرتا ہے۔ اس زمانے میں ایک افراد کو مذہب کے نام پر من مانے جرائم کی ترغیب دیتا تھا۔ اس فرقے نے ایک مصنوعی جنت بنا رکھی تھی اور اس جنت کے سبز باغ دکھلا کر اپنے فرقے کی توسیع کرتا تھا۔ اس فرقے کا سب سے اہم اور بنیادی اصول یہ تھا کہ شیخ وجودی سب کچھ ہے اور اس کے کہنے پر دین و دنیا کی بازی لگا دی جانی چاہیئے۔ کیوں کہ وہی دین و دنیا کی حقیقت کو جاننے والا ہے۔ اس ناول کی پیداوار ہیروئن حسین اور زمرد کو قبضے میں لے کر زمرد کو اس فرقے کے ہاتھوں میں پھنسا دیتا ہے۔ زمرّد کو قبضے میں کر لینے کے بعد حسین کو پھانسنا اور اس سے کام لینا اس مجنوں گروہ کے لیے آسان تھا شیخ وجودی حسین کی سادہ لوحی سے خوب فائدہ اٹھاتا ہے اور اس سے اپنے فرقے کے مخالفین کو قتل کروانے کا کام لیتا ہے۔ بالآخر زمرّد کی ہوشیاری سے طلسم ٹوٹتا ہے اور اس فرقے کا قلع قمع ہو جاتا ہے۔

            اس ناول کی حیثیت خالص تاریخی ہے۔ اس کا کوئی سماجی پس منظر نہیں اور نہ فکری گہرائی ہے۔ اس میں سماجی زندگی کی کوئی ایسی جھلک نہیں جس سے اندازہ ہو سکے کہ ناول کے واقعات اور کرداروں کا تعلق عرب سے ہے یا ہندوستان سے۔ ایران سے ہے یا ترکی سے۔ ناول کے واقعات گویا خلا میں پیش آتے ہیں۔ ناول نگار مورخ کی طرح واقعات کا زمانہ اور صرف سن بتاتا ہے لیکن کوئی بات اس زمانے پر دلالت کرنے کے لئے وہاں موجود نہیں ہے۔ سب سے عجیب بات اس ناول کی یہ ہے کہ ہیرو اور ہیروئن کی سماجی حیثیت سے قاری واقف ہی نہیں ہونے پاتا۔ ناول صرف تاریخی واقعات کو پیش کرتا ہے۔ سماجی حقائق سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ ناول میں نہ تو کوئی سماجی مسئلہ ابھرتا ہے نہ ہی فرد اور سماج کے رشتوں پر کوئی روشنی پڑتی ہے۔ غرض فردوس بریں کو بار بار پڑھ کر بھی ہم نہ تو اس زمانے کی سماجی زندگی کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ اپنے زمانے کی سماجی زندگی کو سمجھنے میں اس سے کچھ مدد پا سکتے ہیں۔ ناول کی سماجی زندگی اور اس کے مسائل سے بے تعلقی اسے داستان کی طرح ایک ’’مثالی قصہ‘‘ بنا کر رکھ دیتی ہے :

            فردوس بریں کے مقابلے میں انا طول فرانس کے ناول ’’نائیس‘‘ کے سلسلے میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ’’تائیس‘‘ کا پس منظر تاریخی ہے۔ اس کے باوجود اپنی سماجی خصوصیات کے لحاظ سے وہ سماجی ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔ ناولوں کی وہ نوع جو جاسوسی ناول کہلاتی ہے عموماً سماجی تفصیلات سے بیگانہ ہوتی ہے۔ ان کا پس منظر تو سماج ہوتا ہے لیکن ان سے سماج کے مسائل اور ان کے رجحانات کو سمجھنے میں مدد نہیں ملتی۔ اردو میں جاسوسی ناول کافی تعداد میں لکھے جا رہے ہیں۔ ان میں بعض ادبی ہیں اور بیشتر غیر ادبی اور بازاری، پہلی قسم کے ناولوں کی مثال میں ظفر عمر اور ابن صفی کے ناولوں کو پیش کیا جا سکتا ہے اور دوسری قسم کے ناولوں کا اردو میں آج کل ایک طومار ہے۔ جاسوسی پنجہ، جاسوسی کارنامے وغیرہ کتنے ہی ایسے سلسلے ہیں۔ ظفر عمر کے ناول ’’نیلی چھتری‘‘ سے لے کر ابن صفی کے رات کا بھکاری۔  تک سبھی ناولوں کا پس منظر کسی نہ کسی حد تک سماجی نیز بیسویں صدی کی زندگی ہے لیکن اس میں ایک بھی ناول ایسا نہیں ملے گا جسے سماجی کہا جا سکے۔ کیوں کہ ان ناولوں میں یا تو کسی ’’نیلی چھتری‘‘ کا راز معلوم کرنے کے لیے ساری دنیا سرگردان نظر آتی ہے یاس کسی ’’قتل‘‘ کا سراغ پانے کے لیے سارا جہاں حیران و پریشان رہتا ہے۔ جاسوسی ناول کا پس منظر بن کر ہمارا اپنا زمانہ بھی اپنا نہیں رہتا۔ کیوں کہ یہاں تو زندگی کا محور قاتل ڈاکو جاسوس اور پولس بن جاتے ہیں۔ یہاں زندگی کا خون ہوتا ہے اور خونی کا سراغ لگانا زندگی کا فرض۔ یہاں زندگی کا تعلق سماج سے نہیں ہوتا بلکہ صرف پولس کے ٹھکانوں اور ڈاکوؤں کے اڈّوں سے ہوتا ہے۔ جاسوسی ناولوں کا تعلق نہ سماجی زندگی سے ہوتا ہے نہ سماجی مسائل سے ان کا سروکار ہوتا ہے ان میں نہ تو سماج کی حقیقت کو صحیح رنگوں میں اجاگر کیا جاتا ہے اور نہ ہی سماج کی نیرنگی سمانے آتی ہے اس لیے ہمارے جاسوسی ناولوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جس کا محض غیر محتاط زندگی سے واسطہ تو ہوتا ہے لیکن معمولی اور فطری زندگی اور سماج سے نہیں۔

            اسی طرح وہ ناول بھی عموماً جذباتی یا نفسیاتی کیفیات کے اظہار تک محدود ہوتے ہیں۔ سماجی ناول کے حدود میں نہیں آسکتے۔ اس کی وضاحت کے لیے انگریزی زبان کا ایک بہت اور مشہور ناول ’’وتھرنگ ہائٹس‘‘ لیا جا سکتا ہے۔ یہ ناول ایملی برونٹی کا لکھا ہوا ہے یہ انگلستان کے ایک دیہات میں رہنے والے خاندانوں کی داستان ہے گو کہ اس ناول میں دیہات کی زندگی کو پس منظر بنایا گیا ہے لیکن اس میں زندگی کی نہیں بلکہ دو کرداروں کی شدید قسم کی جذباتیت کی تصویر پیش کی گئی ہے۔ اس کا اساسی موضوع ہیروہتھ کلن اور ہیروئین کیتھرائین کی شدید جذباتی زندگی ہے۔ لیکن ایملی برونٹی نے اس کے ہیرو کے جذبات کو اس قدر شدید رنگ دے دیا ہے کہ وہ ایک غیر معمولی انسان بن جاتا ہے۔ ناول نگار کے پیش نظر سماجی زندگی کو ابھارنا نہیں تھا بلکہ ایسے کرداروں کو پیش کرنا تھا جو سماجی زندگی سے کٹ کر جذباتی زندگی میں گم ہو جاتے ہیں۔ سومرسٹ مام اس ناول کے متعلق لکھتا ہے کہ :

            ’’یہ جذباتی کتھا ہے۔ ‘‘

            اس لیے سماجی ناولوں میں ایسے ناول شامل نہیں کئے جا سکتے جو کرداروں کی جذباتی یا نفسیاتی زندگی کے اظہار تک محدود ہوں۔ سماجی زندگی کی وسعت کو جب کبھی ناول نگار نظر انداز کر دیتا ہے تو وہ اپنے ناول کو سماجی زندگی سے بے تعلق بنا دیتا ہے۔

            سائنسی ناول بھی عام طور پر سماجی ناولوں کے ذیل میں نہیں آسکتے کیوں کہ ان میں سماجی زندگی کے دائرے میں ایک غیر سماجی زندگی کی تخلیق کی جاتی ہے۔ سائنسی ناول کو غیر سماجی اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اس میں حقیقی سماجی زندگی کو پیش نہیں کیا جاتا۔ ایچ۔ جی۔ ویلز کے اکثر ناول سائنسی ہیں۔ ’’مستقبل کی دنیا‘‘ میں خوابوں کی مجسمہ سازی کی گئی ہے کبھی چاند میں دنیا آباد کی جاتی ہے تو کبھی دو کرّوں کی جنگ کا نقشہ دکھایا جاتا ہے کبھی شہروں کو میناروں میں آباد کر دیا جاتا ہے تو کبھی ہوائی جہازوں کو کھونٹوں سے لٹکا دیا جاتا ہے۔ یہ خوف ناک دنیا دلچسپ تو ہوتی ہے لیکن حقیقی نہیں ہوتی اور جو دنیا حقیقت سے علاقہ نہیں رکھتی وہ سماجی زندگی سے بھی تعلق نہیں رکھتی۔ جن باتوں کا سماجی زندگی سے گہرا ربط نہ ہو وہ سماجی ناول کا موضوع نہیں بن سکتے۔ انگریزی میں سماجی ناول کے فن پر کچھ زیادہ اس لیے نہیں لکھا گیا کہ سماجی خصوصیات ہر قسم کے ناولوں کے لیے قدر مشترک تسلیم کی گئی ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ سماجی ناول اپنا ایک متعین وجود رکھتا ہے۔ بعض نقادوں نے اس کے خدوخال کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ روجر ٹرائلز نے اپنی کتاب ’’دی پلین من اینڈ دی ناول‘‘ میں ایک باب سماجی ناولوں کے لیے بھی مخصوص کیا ہے۔ اس نے جس انداز سے سماجی ناولوں پر بحث کی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ سماجی ناولوں کو دوسرے ناولوں سے الگ سمجھتا ہے اور سماجی ناول کی خصوصیات اور مسائل اس کے پیش نظر ہیں۔ وہ جان گالزوردی کے اکثر ناولوں کو سماجی ناول کہتا ہے۔ اس کے ایک ناول ’’رجنل مومنٹ‘‘ کے متعلق اظہار خیال کا نقشہ قاری کو لازمی طور پر متاثر کرتا ہے اور حقیقت میں سماجی ناول کو پہلی اور اہم ترین شرط یہی ہے کہ ناول نگار اپنے سماج کا غائر مطالعہ کرے اور اگر وہ اس میں کوئی خصوصیت پاتا ہے تو اسے حد درجہ واضح انداز میں پیش کرے۔ آج اردو ادب میں فسانۂ آزاد کی جو اہمیت ہے وہ اسی خصوصیت کی بنا پر ہے۔ اگر فسانۂ آزاد میں حقیقی زندگی کی  عکاسی نہ کی گئی ہوتی تو اپنی داستانوی طوالت اور محیرالعقول واقعات بلکہ حادثات کے ساتھ وہ ناول کے نام سے کبھی پکارا نہ جا سکتا۔

            گالزوردی کے سماجی ناولوں سے بحث کرتے ہوئے روجرٹرائلز نے اس کے بعض اہم خیالات کی طرف اشارہ کیا ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ گالزوردی کے خیالات سماجی مسائل کے متعلق کیا تھے :

’’وہ (گالزوردی) مسائل پر سے نقاب اٹھا کر ان کا کوئی قطعی اور یقینی حل پیش کرنے سے انکار کرتا ہے۔ اس کا استدلال ہے کہ یہ ناول نگار کا منصب نہیں ہے کہ مسائل کا حل بھی پیش کرے۔ اس کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ حل طلب مسائل پر روشنی ڈالے۔ یہ دوسروں کا کام ہے کہ وہ ان کا حل ڈھونڈ لیں۔ میں کون ہوں جو آپ کو شہری ذمہ داریوں سے آزاد کر دوں۔ ‘‘

            وردی نے یہاں بڑی ہی عمدگی سے سماجی ناول نگار کے منصب کا تعین کر دیا ہے۔ سماجی ناول میں سماجی مسائل کی پیش کش ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ سماجی ناول نگار مسائل کا حل بھی پیش کرتا ہے اور کر سکتا ہے لیکن اس بات کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ وہ چاہے تو حل پیش کرے یا صرف ان کی نشان دہی کر دے۔ اس موقع پر بھ ی مثال کے طور پر فسانۂ آزاد کو لیا جا سکتا ہے۔ سرشار سماجی مسائل کو پیش کرے یا صرف ان کی نشاندہی کر دے۔ اس موقع پر بھی مثال کے طور پر فسانۂ آزاد کو لیا جا سکتا ہے۔ لیکن انھیں حل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس طرح اناطول فرانس اپنے ناول تائیس میں جیسا کہ اس سے پہلے واضح کیا جا چکا ہے۔ مسائل کا کوئی حل پیش نہیں کرتا بلکہ حل طلب مسائل پیش کر دیتا ہے لیکن سماجی ناول نگاری میں یہ بات لازمی طور پر ہونی چاہیئے کہ ناول نگار سماجی زندگی کی عکاسی کچھ اس ڈھنگ سے کرے کہ مسائل خودبخود ابھر کر سامنے آ جائیں اور قاری ان سماجی مسائل کے حل کے متعلق غور و فکر کرنے پر مجبور ہو جائے لیکن ناول نگار صرف مسئلہ ہی پیش نہیں کرتا بلکہ بعض اوقات اس کا حل بھی پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ روجرٹرائلز نے ای۔ ایم فورسٹر کے مشہور ناول اے پیج ٹو انڈیا میں ناول نگار کے پیش کردہ مسائل کی وضاحت یوں کی ہے :

’’اب غیر متنازعہ اقتدار کا سوال نہیں رہا تھا بلکہ جن عہدے داروں کی خدمات ملک کے لیے مفید اور ان برطانوی تجارتی مفادات کے حق میں تھی جو وہاں مستحکم ہو چکے تھے، ان سے کام لینے کا سوال تھا۔ خوددار اور پڑھے لکھے ہندوستانی اب برطانوی اقتدار کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ‘‘

            فورسٹر نے اپنے ناول میں صرف ہندوستانی زندگی کے ایک بے حد اہم سوال کو پیش نہیں کیا ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کیا ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہمدردانہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔ ایک ایسے ذہن کی ضرورت ہے جو اس مسئلے کی نزاکت اور نوعیت کو دیکھ کر فیصلہ کرے جیسا کہ خود ناول نگار کا خیال ہے۔

            مذکورہ بالا انگریزی سماجی ناول نگاروں کے سلسلے میں یہ بات قابلِ غور ہے کہ روجر نے جن ناولوں کو سماجی ناول کہا ہے انہی کو ورلڈ فکشن کے مرتبین مختلف نام دیتے ہیں جیسے گالزوردی کے ناولوں کو چنچل ناول کہا گیا ہے۔ ‘‘

’’فورسٹر کے ناولوں سے حقیقی ناولوں کے عنوان کے تحت بحث کی گئی ہے ‘‘۔

’’اے پیچ ٹو انڈیا‘‘ میں وہ براہِ راست ان مسائل سے بحث کرتا ہے جو ہندوستان میں انگریزی اقتدار کی وجہ سے پیدا ہوئے۔ ۔ ۔  اس نے بتایا ہے کہ یہ مسئلہ عملی طور پر ناقابلِ حل ہے۔ دونوں طرف مفاہمت کا جذبہ اس قدر مفقود ہے کہ ہندوستان کی آزادی ہی اس کا واحد حل ہو سکتی ہے۔ ‘‘

            ’’اسی طرح اس نے بینٹ کے ناولوں کو سماجی ناول کہا لیکن ’’دی ورلڈ فکشن‘‘ میں ان کو بھی حقیقی ناول سے موسوم کیا گیا ہے۔ ‘‘

            کبھی کوئی انگریزی ناول نگار کسی سماجی مسئلے کو اٹھاتا ہے یا پیش کرتا ہے تو اس سماجی مسئلے کی بنا پر ناول کا نام دے دیتا ہے۔ یہ بات صاف ظاہر ہے کہ سماجی ناول دوسرے تمام ناولوں سے بالکل الگ اپنی خصوصیات رکھتے ہیں۔ اس تفصیلی بحث کے بعد سماجی ناول کی خصوصیات کا تعین کر لینا بہت آسان ہو جاتا ہے مثلاً ایسے سارے ناولوں کو اس ذیل میں شامل کر سکتے ہیں جن میں حسب ذیل خصوصیات ہوں۔

زندگی کا تسلسل

            زندگی ماضی سے مستقبل کی طرف بڑھتی ہے اور یہی تسلسل سماجی زندگی کی حقیقت ہے اس حیثیت سے سماجی ناول زندگی کا عکس ہوتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ زندگی کے تسلسل کو پیش کرے اور اس لیے سماجی ناول میں حقیقت نگاری اور اپنے زمانے کے حالات کا گہرا شعور سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ سماج ماضی کی بنیادوں پر استوار ہوتا ہے اور مستقبل کی طرف پیش قدمی کرتا ہے۔ اس لیے یہ سماجی ناول نگار کا فرض ہوتا کہ وہ ماضی کو نظر میں رکھے اور حال کی مطابقت سے مستقبل کی وضاحت کرے۔ یہ نہیں کہ مستقبل کی مثالی بنانے کے لیے حال کی حقیقتوں سے منہ موڑ لے۔

سماجی مسائل

            ناول میں سماجی مسائل کی پیش کش بہت اہمیت رکھتی ہے۔ سماجی ناول حقیقی معنوں میں وہ ہیں جن میں سماجی مسائل اس طرح ابھر کر سامنے آئیں کہ کرداروں اور واقعات کے تانے بانے سے ان کی صورت گری ہو۔

سماجی مقصد

            کسی سماجی مقصد کو پیش کرنا بھی سماجی ناول کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ لیکن مقصد کی پیش کش ایسی ہو کہ ناول پروپیگنڈا نہ بن جائے حد سے بڑھتی ہوئی مقصدیت ناول کے فن کو مجروح کر دیتی ہے۔ ناول میں تاثر اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب مقصد خودبخود ابھر کر سامنے آ جائے۔

حقیقی زندگی سے ربط

            سماجی ناول میں حقیقی زندگی سے گہرا ربط ہوتا ہے۔ اس لیے سماجی ناول جس زمانے میں لکھا جاتا ہے اس زمانے کی ہو بہو تصویر پیش کرتا ہے۔ سماجی ناول وہی زیادہ اچھا ہو گا جس میں زندگی کی مجموعی تصویر کی عکاسی پورے طور پر کی گئی ہو۔ اگر زندگی کا کوئی ایک حصہ یا ایک پہلو سماجی ناول میں ابھرتا ہے تو وہ سماجی ناول میں ابھرتا ہے تو وہ سماجی ناول ناقص ہو گا اور اگر وہ اپنے آپ کو زندگی کے بہت چھوٹے اور غیر اہم پہلو تک محدود کر لیتا ہے تو پھر وہ سماجی ناول میں ابھر تا ہے تو وہ سماجی ناول ناقص ہو گا اور اگر وہ اپنے آپ کو زندگی کے بہت چھوٹے اور غیر اہم پہلو تک محدود کر لیتا ہے تو پھر وہ سماجی ناول نہیں کہلایا جا سکتا۔

سماجی ناول کا اسلوب

            سماجی ناول کی ایک یہ بھی خصوصیت ہوتی ہے کہ اس کا اسلوب بیان پیش کردہ واقعات اور کردار کے مطابق ہوتا ہے۔ سماجی ماحول اور خاص سماجی تقاضوں کے اعتبار سے سماجی ناول کا اسلوب متعین ہوتا ہے۔ اچھے سماجی ناول میں اسلوب ماحول سے اس قدر ہم آہنگ ہو جاتا ہے کہ اس زمانے کی سماجی زندگی کا اندازہ اس کے اسلوب سے کیا جا سکتا ہے۔

سماجی ناول کے مکالمے

            مکالمے کو سماجی ناول میں ایک خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ ناول نگار اپنے کرداروں کی سیرت، شخصیت اور مزاج و ماحول کی مناسبت سے مکالمے پیش کرتا ہے۔ ہر کردار کے مکالمے اس کی ذہنی استعداد، طبیعت کے رجحان اور سماجی حیثیت سے ہم آہنگ ہوتے ہیں بالخصوص حسب مراتب مکالمے ناول میں جان ڈال دیتے ہیں۔ وہی سماجی ناول کامیاب ہوتا ہے جس کے کردار مصنف کے نظریات اور تصورات کی ترجمانی نہ کرتے ہوئے خود اپنی ترجمانی میں کامیاب ثابت ہوں۔

سماجی پس منظر

            سماجی ناول میں سماجی حالات و مسائل کی حقیقت سے قریب ترین ترجمانی کی جاتی ہے۔ سماجی زندگی کی حقیقی ترجمانی اور پیش کش ہی سماجی ناول کا بنیادی مقصد ہوتا ہے۔ کرداری ناول کی طرح محض کسی کردار یا چند خاص کرداروں کی ترجمانی سماجی ناول کے منصب کے منافی ہے۔ اس میں تو فرد کی زندگی اور اس کے ہر طرح کے مسائل کو سماجی پس منظر میں رکھ کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس سماجی پس منظر کی واضح اور حقیقی پیش کش ہی کسی ناول کو سماجی ناول بناسکتی ہے اور اسی سے بے تعلقی کسی بھی ناول کو سماجی ناول کے دائرے سے نکال سکتی ہے۔

Facebook
Twitter
WhatsApp

ادب سے متعلق نئے مضامین

جون ایلیا کون تھے کیا تھے

#یوم_ولادت_جون_ایلیا جون ایلیا جن کا اصل نام سید حسین سبطِ اصغر نقوی تھا۔ ان کی پیدائش ۱۴ دسمبر ۱۹۳۱ امروہہ