ناپید جب یہ سِلسِلۂ ہست و بُود تھا
نُورِ مُحَمَّدی کا یقیناً وُجُود تھا
جِسمِ رسُولِ پاک تھا اپنی مثال آپ
اِک شمع تھی کہ جِس کا نہ سایہ نہ دُود تھا
شہرِ نبی میں جا کے نہ آیا خیالِ غیر
پیہم مِری زباں پہ سلام و دُرُود تھا
اُس کی نظر تھی محرمِ اسرارِ دوجہاں
وہ راز دارِ عالمِ غیب شُہُود تھا
دِل دادہ کردیا اُنھین صوم و صلوٰة کا
وہ جِن کا شُغل دَغْنا و نمُود تھا
اُس کی صداۓ حق نے اُلٹ دی بِساطِ کُفر
صدیوں سے اِس کُرے پہ مُسلسل جمُود تھا
اتمام نعمتوں کا ہو یا وہ رضاۓ حق
اِس بزمِ آب و گِل میں اُسی کا وُجُود تھا
آۓ تھے جِس میں بہرِ سلامی ملائکہ
راغبؔ مِرے حضُور کا چشنِ دُرُود تھا۔۔
راغب مرادآبادی