MOJ E SUKHAN
No Record Found
ناکام محبت کا ہر اک دکھ سہناہر حال میں انجام سے ڈرتے رہنا
قدرت کا بڑا انتقام ہے جیدیؔمحبوبہ کی اولاد کا ”ماموں” کہنا
اطہر شاہ خان جیدی
مکان ہی نہ بنائے گئے زمیں کم تھی
فریاد کہ وہ شوخ ستم گار نہ آیا
حرف اپنے ہی معانی کی طرح ہوتا ہے
بہت نازک ہے یہ دل دیکھیئے ایسا نہ کیجئے
رد نہ کر میرا التماس ابھی
زندگی تیرا اعتبار نہیں
لڑکھڑاتی ہوا روز کہتی ہے کیا شہر والو سنو
کوئی وہم کوئی گماں نہیں
اک شخص رات بند قبا کھولتا رہا
آتش دلِ زار میں لگائی اس نے رباعی
تھا ہم سے بھی ربط یا کہ نہ تھا
جب سے وہ گئے ادھرنہیں یاد کیا رباعی
یہ حکم خدا کا کہ قطرہ مے کا نہ پیوں – Ye
مومن لازم ہے وضع مرغوب بنے
رباعیات حکیم عمر خیام نیشا پوری
کیا تیری جدائی میں ستم دیکھتے ہیں رباعی امیر مینائی
غائب بہت اے جان جہاں رہتے ہو رباعی امیر مینائی
باغوں میں جو قمریاں ہیں سب مٹی ہیں رباعی قلندر
سب ستارے لٹا دیۓ میں نے
ہوا کے واسطے اک کام چھوڑ آیا ہوں
ہوائے تیز ترا ایک کام آخری ہے
اک چراغِ آرزو پھر سے جلانا ہے مجھے
عشق جب تک جان و دل کا رہنما ہوتا نہیں
رازداں ہم نے بنایا آپ کو
جرم الفت کی سزا دینے لگے
از رہِ التفات بنتی ہے
میں نے تو درد کو سینے میں چھپا رکھا ہے
سنو اے باوفا لڑکے
تمہاری خاطر نقاب اوڑھوں نہ گھر سے نکلوں
تیرے جانے سے کچھ نہیں بدلا
ہو نے سر جو بدلا ہے
ادھر ادھر کی نہ تم سنانا بچھڑنے والے بتا کے جانا
آجکل دل کا عجب حال ہوا ہے جاناں
جا ترے بس میں نہیں یار محبت کرنا
نظم ہونے لگی
سنو میں مان لوں کیسے تمہیں مجھ سے محبت ہے