نا روا تھا، نا مناسب تھا، مگر اچھا لگا
بے وفا اِک، دشمنوں کی پشت پر اچھا لگا
وہ اچانک لوٹ آیا توڑ کر رسمِ فراق
گرمیوں میں سرد موسم کا ثمر اچھا لگا
لگ گئی شاید مجھے آوارگی کی بد دعا
لوٹ کر اب کے میں آیا ہوں تو گھر اچھا لگا
ہر کسی سے ہنس کے ملنا، خوش دلی سے بولنا
میرا دشمن ہے مگر اُس کا ہنر اچھا لگا
یہ محبت ہے مری یا اُس کا ہے کوئی کمال
جس قدر پرکھا اُسے، وہ اُس قدر اچھا لگا
آنے والے موسموں کی سختیوں کے ذکر پر
اُس کے چہرے پر اکیلے پن کا ڈر اچھا لگا
اب کے اُس کے قرب کی جنت بھی دیکھی پاس سے
اب کے مجھ کو خواب زاروں کا سفر اچھا لگا
میرے بارے میں مجھی سے پوچھتا ہے وہ نعیمؔ
اِس خبر کے دور میں اِک بے خبر اچھا لگا
محمد نعیم جاوید نعیم