غزل
نجانے کس کی دعا ہے کہ کام چل رہا ہے
کوئی نظام نہیں اور نظام چل رہا ہے
رہ وفا میں بچھے ہیں جفا کے انگارے
جو چل رہا ہے وہ دو چار گام چل رہا ہے
کئی ادیبوں کے نامرد ہو چکے ہیں قلم
کئی برس سے فقط ان کا نام چل رہا ہے
خبر ملی ہے کہ آقا پرست بستی میں
کسی کے پیچھے کسی کا غلام چل رہا ہے
جو کھا چکا ہے ہمارے شکیب اور ثروت
سخن کدوں میں وہی حرف خام چل رہا ہے
میں جانتا ہوں جو نا شاعروں کی ہے قیمت
میں جانتا ہوں جو ان سب کا دام چل رہا ہے
ہے ثبت مہر سفارش حسین جسموں پر
ادب کی منڈی میں مال حرام چل رہا ہے
تجھے خبر نہیں واصفؔ بدن کے سکے کی
اے میرے دوست یہ سکہ تو عام چل رہا ہے
جبار واصف