23/02/2025 18:10

نسرین سید کا شعری مجموعہ ملہار

تحریر ثاقب ظفر خان

"ملہار” میں اگر ایک موضوع تلاش کیا جائے تو بلا شبہ وہ موضوع "عشق” ہے

ہیں گہر قرطاس پر، یہ خامہ فرسائی نہیں
شعر ہے رمزو کنایہ، حرف آرائی نہیں

کھول کر پرتیں سخن کی گر نہ ہو لذت کشید
کھیل لفظوں کا، تفکر میں جو گہرائی نہیں

نسرینؔ سید صاحبہ سے میرا کوئی باقاعدہ تعارف نہیں۔کوئی دو برس قبل فیس بک پر انحراف کے پلیٹ فارم پر فی البدیہ طرحی مشاعروں میں دیکھا کہ ایک خاتون ہیں جو خود بہت کم شعر کہتی ہیں اور دوسرے شعراء کے اشعار پر ایک ماہرانہ تبصرہ فرما رہی ہیں، حوصلہ افزائی کے ساتھ ہی ساتھ کمیوں/خامیوں کی بھی ایک بڑے پن کے ساتھ نشاندہی فرما رہی ہیں کہ شعر کہنے والے کو برا بھی محسوس نہیں ہو رہا اور نہ ہی کوئی احسان کرنے والا انداز ہے۔ یہ خاصہ عام طور پر مردوں میں بھی چند ہی سینیئر شعراء کا رہا ہے کجا یہ کہ ایک خاتون شاعرہ مشفقانہ انداز میں صرف فن سے لگاؤ کی بنیاد پر دوسرے مرد شعراء کی تربیت کر رہی ہو اور اس کی بتائی ہوئی ٹپس سے اس کی فنِ شاعری کی مہارت کا بخوبی اندازہ ہو رہا ہو۔ میرے لیئے یہ ایک خوشگوار حیرت کا سامان تھا۔ اسی دوران ان کے چند فی البدیہ اشعار بھی پڑھنے کو ملے اور کچھ دوسرے شاعری کے گروپس میں ان کی شاعری (جو کسی اور نے منٹخب کر کے لگائی) کو پڑھنے سے ان کے شعری قد و کاٹھ کا اندازہ ہوا اور یہ بھی معلومات ملیں کہ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں، پنڈی اور کراچی سے تعلق رکھتی ہیں اور انحراف کے سبھی ممبران ان کی بہت عزت کرتے ہیں۔

پچھلے دنوں اکادمی ادبیات، اسلام آباد میں انحراف کے ایک مشاعرے میں جو لاہور سے تشریف لائے ڈاکٹر افتخار الحق کے اعزاز میں منعقد ہوا، نسرینؔ سید کے چھٹے شعری مجموعے "ملہار” کی تقریبِ رونمائی بھی ہوئی اور چند شعراء نے اس پر تبصرے بھی فرمائے۔ کتاب پر نسرینؔ سید کا نام دیکھ کر اسے پڑھنے کا شدید اشتیاق ہوا اور منتظمین سے مانگ کر لی۔ کتاب کو پڑھ کر ایک اچھی اور بھرپور شاعرہ سے کچھ تعارف ہوا اور ایک مختصر تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

نسرینؔ اسے رکھ تو سہی لا کے دکاں میں
ہے قدر جنہیں، ان سے ہنر بات کرے گا

کتاب کے ابتدایئے میں نسرینؔ سید اپنے بارے میں لکھتی ہیں کہ انہیں شاعری سے عشق ہے اور ایک مصرعہء تر کی تلاش انہیں وصالِ جاناں سے بھی زیادہ محبوب ہے۔ یہ بات کہنا ایک عام شاعرہ کے بس کی بات نہیں ہے کہ اس میں اپنے فنِۤ شاعری کی گہرائی کے بارے میں ایک دعوٰی بھی پوشیدہ ہے۔ کتابِ ملہار کے مطالعے سے اندازہ ہوا کہ ان کا یہ دعوٰی بالکل بجا ہے اور پھر ان کا یہ عشق کس پائے کا ہے اس کا بھی بخوبی پتہ ملتا ہے۔ "ملہار” میں اگر ایک موضوع تلاش کیا جائے تو بلا شبہ وہ موضوع "عشق” ہے۔ وہ عشقِ حقیقی بھی ہے، عشقِ مجازی بھی اور شاعری کے فن سے عشق بھی۔ عشق کے موضوع کو انہوں نے اس کتاب کی تقریبا” تمام غزلوں میں بیان کیا ہے بلکہ ایک ہی غزل میں کئی کئی مرتبہ بھی بیان کیا ہے اور کمال یہ ہے کہ ہر مرتبہ ایک مختلف انداز میں بیان کیا ہے کہ کہیں بھی تکرار محسوس نہیں ہوتی اور قاری پر عشق کی پرتیں، انواع، انداز، اطوار، آداب اور انوکھے زاویئے کھلتے چلے جاتے ہیں۔

ملال و رنج الگ، لطفِ ہجرِ یار الگ
دیا ہے عشق نے اس دل کو اضطرار الگ

رگوں میں شور مچائے فشارِ خون جدا
درونِ دل کوئی تڑپے ہے بار بار الگ

سماعتیں ہیں الگ آہٹوں پہ رکھی ہوئیں
پھر اس پہ آنکھ کو لاحق ہے انتظار الگ

عطائے عشق ہے جو بھی سنبھال رکھا ہے
دلِ فگار الگ، روح تار تار الگ

وہ ہم کلام ہے یا گل سماعتوں میں کھلے
سخن کا کیف الگ، لہجے کا خمار الگ

فزوں تو رنگِ شکستِ انا بھی تھا نسریںؔ
لپٹ گئی مرے قدموں سے میری ہار الگ

اس پر مستزاد ان کی شعری مہارت واہ۔۔۔ سونے پر سہاگہ والی بات ہے۔ میری عادت ہے کہ کوئی شاعری کی کتاب پڑھتا ہوں تو پسندیدہ اشعار کو نشان زدہ کرتا جاتا ہوں تاکہ بارِ دگر مطالعہ پر صرف انتخاب کو ہی پڑھا کروں اور وقت کی بچت ہو سکے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ "ملہار” کے مطالعے کے دوران اس پر اتنے نشان لگ گئے کہ اب تبصرہ لکھتے وقت انتخاب در انتخاب در انتخاب کرنا مشکل ہو رہا ہے۔دامن کی تنگی سے فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ کون سے لعل و جواہر اٹھاؤں اور کون سے چھوڑوں۔ ایک منفرد اور کمال کی غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں، جنہیں پڑھ کر جی بے اختیار عش عش کر اٹھتا ہے۔

نہ پوچھ مذہب و نام و نسب، سوال نہ کر
جو ہے ترا، ہے وہی میرا رب، سوال نہ کر

یہ تیرا خام تجسس نہ تجھ کو بھٹکا دے
نہ رہ گمان میں، ایسے عجب، سوال نہ کر

سوال کرنا ضروری ہے آگہی کے لیئے
مگر ہو آگہی آزار جب، سوال نہ کر

ابھی تو شہرطلسمات میں ہے پہلا قدم
تو آگیا ہے تو کر صبر اب، سوال نہ کر

نہ پوچھ حرف ستاروں میں ڈھل گئے کیسے
سخن کو کیسے ملی تاب و تب، سوال نہ کر

سفر میں کون کہاں میرا ساتھ چھوڑ گیا
نہیں ہے جاننا لازم یہ سب، سوال نہ کر

یہاں تو بس سرِ تسلیم خم رہے نسریںؔ
یہ عشق ہے، ذرا حدّ ادب، سوال نہ کر

نسرین سید کی شاعری میں ایک الہڑ نوجوان لڑکی کا عشق بھی ہے جو ساجن کے لیئے بنتی سنورتی ہے، اس کا انتظار کرتی ہے، اس کی بے توجہی پر گلے شکوے بھی کرتی ہے اور جب اپنے آپ کو اسے سونپ دیتی ہے تو اس پر کلّی اعتماد کرتی ہے۔ اور ان کے ہاں ایک عشقِ کامل کی جھلک بھی ملتی ہے جو اپنے محبوب کو بھی عشق کی جہتیں سکھاتا ہے اور عشق کے آداب سے روشناس کراتا ہے اور ہر پسند آ جانے والی چیز کو عشق کا نام نہیں دیتا۔ ان کے عشق میں نو خیزیت بھی ہے اور ایک رکھ رکھاؤ بھی ملتا ہے جو اپنی انا کو قربان کئے بغیر محبوب سے جوابی محبت کا تقاضا کرتا ہے۔ کچھ اشعار ملاحظہ فرمایئے۔

باعثِ عز و شرف ہیں عشق میں یہ تہمتیں
اس خرابے میں ہیں گرچہ دل کی رسوائی بہت

کتاب کو کہاں اہلِ کتاب سمجھے ہیں
بس اس قدر کہ گناہ و ثواب سمجھے ہیں

سمجھ سکا نہیں قاصد تو، کورے کاغذ پر
لکھا ہے اس نے جو، ہم وہ جواب سمجھے ہیں

عشق میں کب خرد کا ہے سکہ چلا
تجھ کو پا لوں، اگر رنگ لائے جنوں

یہ منفرد انداز بالخصوص توجہ کے لائق ہے۔۔۔۔

کردیا ہم نے سخن سے وار کاری، واہ واہ
ماری وہ رمز و کنایہ کی کٹاری، واہ واہ

دین و دنیا کیا، ہوئے بیگانہء ہوش و خرد
کر دیا جو اس نظر نے سحر طاری، واہ واہ

دل نے آگے بڑھ کے پہلے تو لیے اس کے قدم
پھر نظر اس کی، جو نظروں نے اتاری، واہ واہ

تھا جو لازم اس پہ آئی ہر بلا کو ٹالنا
جان اپنی ہم نے صدقے میں جو واری، واہ واہ

اور یہ رنگ بھی دیکھیئے۔۔۔۔کیا ہے دلنشین ہے!
کسی کے عشق کا پرتو ہے شاید
مرے شعروں میں رعنائی بہت ہے

ملی ہے شاعری میں ہم کو نسریںؔ
وہ شہرت، جس میں رسوائی بہت ہے

نسرینؔ سید قدیم اور جدید شاعری کا ایک حسین امتزاج ہیں۔ عشق و محبت جیسے قدیم موضوع کو انہوں نے روائیتی انداز میں بھی خوب نبھایا ہے اور ایک خاص جدت بھی عطا کی ہے کہ کلام پر فرسودہ ہونے کا شائبہ بھی نہیں گزرتا۔ ان کا ہر ہر شعر ایک نیا پن لیئے ہوئے ہوتا ہے۔ شاعری کی بنیادی خصوصیات میں شامل ہے کہ شعر موضوع اور اظہار دونوں اعتبار سے کمال ہو۔ صرف اچھی بات کہنا ہی کافی نہیں بلکہ اچھے انداز سے کہنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ اس میں بھی محترمہ کمالِ فن سے متسف دکھائی دیتی ہیں۔ مختلف قسم کی موضوعاتی گہرائی اور اس پر شعری حسن کا برقرار رکھنا انہیں شاعروں میں اونچا مقام عطا کرتا ہے۔ چند کمال اشعار دیکھیئے۔۔۔سبحان اللہ

فلک میں تب کہیں جا کر درِ ایجاب کھلتا ہے
دعا میں اشک، اشکوں میں پشیمانی ملاتی ہوں

سوادِ درد میں رہنا ہی دل کو راس ہے نسریںؔ
سو اب آشوبِ جاں میں غم کی ارزانی ملاتی ہوں

ہے فقیری راس ، اس کے رنگ میں کیسی ڈھلوں
یوں بھی یہ دنیا بہت کم ہے مرے معیار سے

دلِ مجزوب کچھ اس طور سے مدہوش رہا
غمِ ہستی، غمِ فردا، نہ غمِ دوش رہا

پلٹ آئے ہو جب، کیا معذرت، کیسی معافی
جھلکتی ہے جو آنکھوں سے پشیمانی بہت ہے

کتابِ درد ہوں اورانتساب خواب گری
ہے زندگی کا مکمل نصاب خواب گری

درد سہنے ک مری تاب ہے بڑھتی جوں جوں
رنج دینے میں وہ سفاک ہوا جاتا ہے

بے وزن دلائل سے کبھی بات بنی ہے
کیا کھینچ کے لے جاؤ گے تاویل فلک تک

طلب آتش کی، ظرفِ عشق پر ہے منحصر، جیسے
الاؤ ہے مجھے کم، تم کو چنگاری زیادہ ہے

نسرینؔ سید کی شاعری کی ایک بہت ہی خاص بات یہ ہے کہ وہ اپنے فن کے معیار کی پرکھ میں خاتون /شاعرہ ہونے کا کوئی فایدہ مانگتی نظر نہیں آتیں۔ ہو سکتا ہے کہ میری اس رائے میں میرے محدود مطالعے کا بھی دخل ہو مگر میری یہ رائے ہے کہ اردو شاعری میں عام طور پر مرد شعراء کا رنگ اور غلبہ بہت گہرا ہے اور ماضی قریب میں چند شاعرات ہی اس قابل ہو سکیں کہ مرد شعراء کہ ہم پلہ شعری معیار پیش کر سکیں جن میں پروین شاکر سب سے بڑا نام ہے۔ دوسرے ناموں میں زہرا نگاہ، ادا جعفری، فہمیدہ ریاض، کشور ناہید اور نوشی گیلانی قابلِ ذکر ہیں۔ مجھے نسرینؔ سید اپنی شاعری میں ان بڑے ناموں کے قریب قریب دکھائی دیتی ہیں۔ ان کے لہجے کی پختگی اور سوچ کی گہرائی کا اندازہ ان اشعار سے لگایئے۔۔۔

لہجے کی یہ تلخی نہیں مسموم سے کچھ کم
اور اس پر عزائم نہیں مزموم سے کچھ کم

پل بھر کو جو ہو جاتی ہے وہ چشمِ عنایت
ہم خود کو سمجھ لیتے ہیں محروم سے کچھ کم

یوں عشقِ بلاخیز نے ہستی کو مٹایا
کہنے کو ہوں موجود، پہ موہوم سے کچھ کم

لکھا تھا ترا نام کبھی دل پہ ہمارے
اب نقش تو باقی ہے پہ مرقوم سے کچھ کم

ایک اور غزل سے منتخب اشعار دیکھیئے۔۔۔

کسی پیمانِ باہم کے قفس ہونے سے پہلے
پرکھنا، خود پہ اس کی دسترس ہونے سے پہلے

ستم ہے وقت کا اور وقت کب کس کا ہوا ہے؟
تناور پیڑ تھی میں خار و خس ہونے سے پہلے

کبھی آؤ کہ مجھ کو اعتبارِ زندگی ہو
مگر یہ زندگی کارِ عبث ہونے سے پہلے

اثر دل پر ہوا ہے، جو تمہاری بے رخی سے
کوئی مرہم، اثر کے دور رس ہونے سے پہلے؟

رہے یہ دھیان میں، کیسے بدلتے ہیں رویے
حصارِ عشق کے، دامِ ہوس ہونے سے پہلے

ہیں جس کی منتظر نسریںؔ یہ آنکھیں، کاش آئے
شکستِ نغمہء تارِ نفس ہونے سے پہلے

"ملہار” کی آخری غزل کے ان اشعار سے پوری کتاب اور شاعرہ کے فن کے معیار کا پتہ ملتا ہے۔

یہ دیکھ تجھے کتنا منور کیا ہم نے
مت سوچ کہ ہم کس لیے گہنائے ہوئے ہیں

کیا جانئے پورا کبھی ہو پائے گا ہم کو
جس وعدہء فردا سے وہ بہلائے ہوئے ہیں

ان کی روایت اور جدت کے امتزاج کا ثبوت یہ ہے کہ ان کی کتاب ملہار میں حسبِ روایت حمد اور نعت ابتدا میں موجود ہیں اور ان کی جدت اور استغنا کا یہ عالم ہے کہ کسی بڑے یا چھوٹے شاعر سے انہوں نے کتاب کے لیئے اظہاریہ یا مختصر رائے بھی مانگنے کا زیر بار ہونا گوارا نہیں کیا۔

نسرینؔ سید کا شعری سفر ابھی جاری ہے اللہ سے دعا ہے کہ ان کی قلم کی روانی میں اضافہ ہوتا رہے اور وہ اردو ادب میں ایک سنجیدہ شاعرہ کے نام کا اضافہ کر پائیں۔

والسلام و دعاگو

ثاقب ظفر خان
4 مئی 2023، راولپنڈی

Facebook
Twitter
WhatsApp

ادب سے متعلق نئے مضامین