نظر آتا ہے وہ جیسا نہیں ہے
جو کہتے ہو مگر ویسا نہیں ہے
نہیں ہوتا ہے کیا کیا اس جہاں میں
وہی جو چاہیئے ہوتا نہیں ہے
بھرا ہے شہر فرعونوں سے اپنا
کوئی ہوتا جو اک موسیٰ نہیں ہے
چلو اک اور کوشش کر کے دیکھیں
یونہی گھٹ گھٹ کے مر جانا نہیں ہے
نہیں ہے خواب دیوانے کا ہستی
یہ دنیا صرف اک دھوکا نہیں ہے
نہایت تلخ ہے سنگین سچ ہے
حقیقت اپنی افسانہ نہیں ہے
نمک اشکوں کا دل کو لگ گیا ہے
یہاں اب کچھ کہیں اگتا نہیں ہے
جو کرنا چاہیئے وہ ہی کیا ہے
ملے گا اجر کیا سوچا نہیں ہے
سنائے جا رہے ہیں اپنی اپنی
اجی سنیے مجھے سننا نہیں ہے
ہمیں چھیڑے نہیں بلقیسؔ کوئی
ہمارا آج جی اچھا نہیں ہے
بلقیس ظفیر الحسن