loader image

MOJ E SUKHAN

نظر آیا نہ کوئی بھی ادھر دیکھا ادھر دیکھا

غزل

نظر آیا نہ کوئی بھی ادھر دیکھا ادھر دیکھا
وہاں پہنچے تو اپنے آپ کو بھی بے نظر دیکھا

یہ دھوکا تھا نظر کا یا فرشتہ سبز چادر میں
کہیں صحرا میں لہراتا ہوا اس نے شجر دیکھا

کہیں پہ جسم اور پہچان دونوں راہ میں چھوڑے
خود اپنے آپ کو ہم نے نہ اپنا ہم سفر دیکھا

بنے کیا آشیاں تازہ ہوا نہ پیڑ کے جھرمٹ
کسی اڑتے پرندے نے نئے یگ کا نگر دیکھا

لگے تھے آئنہ چاروں طرف شاید محبت کے
نظر کے سامنے تھا بس وہی ہم نے جدھر دیکھا

زمیں کی سیج پر سائے کی چادر اوڑھ کر سویا
کسی بنجارے سیلانی نے رستے میں ہی گھر دیکھا

کبھی ہم ڈوب جائیں گے اسی میں سوچتے ہر دم
ہمارے دل نے جب دیکھا حبابوں کا بھنور دیکھا

دیپک قمر

ایک تبصرہ چھوڑیں