غزل
نظر میں اپنی کبھی اس قدر برا تو نہ تھا
میں اپنے آپ سے پہلے گریز پا تو نہ تھا
یہ کیا کیا اسے تقدیر سونپ دی اپنی
مری طرح وہ اک انسان تھا خدا تو نہ تھا
گزر گیا جو برابر سے منہ چھپائے ہوئے
یہ سوچتا ہوں کہیں کوئی آشنا تو نہ تھا
کسے قبول تھا زندان آب و گل لیکن
اب اور اس کے سوا کوئی راستہ تو نہ تھا
جمی تھیں مجھ پہ نگاہیں جو اک زمانے کی
مجھے وہ مڑ کے سر راہ دیکھتا تو نہ تھا
تمام عمر رہی جس کی جستجو خاورؔ
کہیں وہ شخص مجھی میں چھپا ہوا تو نہ تھا
رحمان خاور