غزل
نغموں کے قافلے کا میں تنہا نقیب تھا
یا شاخ کائنات پہ اک عندلیب تھا
اپنا کوئی رفیق نہ کوئی رقیب تھا
میں خواہشوں کی بزم میں سب کے قریب تھا
زینے پہ قصر وقت کے چڑھتا چلا گیا
میرا شکستہ حوصلہ جو خوش نصیب تھا
اس کے بدن سے لپٹی ہوئی تھی لہو کی شاخ
وہ شخص جو کہ شہر انا کا خطیب تھا
تھیں آسماں کی وسعتیں اپنی نگاہ میں
لمحات گم شدہ کا تصور عجیب تھا
گرداب حادثات میں ہم پھنس کے رہ گئے
جب ساحل مراد بہت ہی قریب تھا
لوگوں سے مل رہی تھی اسے روشنی کی بھیک
دل کے حسیں دیار میں جامیؔ غریب تھا
عبدالمتین جامی