غزل
نغمۂ مینا ہے رقص جام ہے
تو کہاں اے گردش ایام ہے
ہو نہ جائے حسن پر جب تک نثار
زندگی الزام ہی الزام ہے
اٹھ گئے سب مے کشان سرفروش
مے کدوں میں اب خدا کا نام ہے
پھیر لیں جس سے نگاہیں آپ نے
اس کی قسمت میں کہاں آرام ہے
تم ہی نامحرم ہو ورنہ مے کشو
زندگی خود اک چھلکتا جام ہے
آدمی کو مارتی ہے زندگی
موت پر تو مفت کا الزام ہے
تیرے بس کا روگ اے صابرؔ نہیں
شاعری تو دل جلوں کا کام ہے
صابر ابوہری