Naqsh e Mehroomi e Taqdeer ko Tadbeer Main rakh
غزل
نقش محرومی تقدیر کو تدبیر میں رکھ
سعی امکاں سے گزر شوق کو تعمیر میں رکھ
اپنے احساس رفاقت کا بنا مجھ کو گواہ
اور پھر میری گواہی مری تقصیر میں رکھ
تو ہے مختار تجھے حق ہے تصرف پہ مرے
میں کہ کھیتی تری تو مجھ کو بھی جاگیر میں رکھ
رنگ سچے ہوں تو تصویر بھی بول اٹھتی ہے
بے یقیں رنگوں کی حیرت کو نہ تصویر میں رکھ
اور بھی قرض ہیں تحریر کے اے صاحب علم
اک فقط تذکرۂ عشق نہ تحریر میں رکھ
نسیم سید
Naseem Syed