غزل
نقش پا جب ڈھونڈھتی ہوں میں تمہارا ریت پر
یاد کی کچھ سیپیاں ہیں اب سہارا ریت پر
جاں ہماری بچ گئی ہے موسموں کے خوف سے
جاتی رت کے ہم مسافر گھر ہمارا ریت پر
ساحل ارماں سے اٹھی جب بھی موج بے اماں
بیٹھ کر میں دیکھتی ہوں یہ نظارہ ریت پر
تو الجھ کے رہ گیا ہے بندھنوں کے جال میں
آنسوؤں کے تار ٹوٹے ہے اشارہ ریت پر
حسرت تعمیر کی اب دل میں خواہش ہی نہیں
کس قدر ویراں کھنڈر ہے گھر ہمارا ریت پر
تتلیوں کو روک لو جانے نہ دو باد صبا
اب بہارؔ بے خزاں کا ہے گزارا ریت پر
بہار النساء بہار