نومید کرے دل کو نہ منزل کا پتا دے
اے رہ گزر عشق ترے کیا ہیں ارادے
ہر رات گزرتا ہے کوئی دل کی گلی سے
اوڑھے ہوئے یادوں کے پر اسرار لبادے
بن جاتا ہوں سر تا بہ قدم دست تمنا
ڈھل جاتے ہیں اشکوں میں مگر شوق ارادے
اس چشم فسوں گر میں نظر آتی ہے اکثر
اک آتش خاموش کہ جو دل کو جلا دے
آزردۂ الفت کو غم زندگی جیسے
تپتے ہوئے جنگل میں کوئی آگ لگا دے
یادوں کے مہ و مہر تمناؤں کے بادل
کیا کچھ نہ وہ سوغات سر دشت وفا دے
یاد آتی ہے اس حسن کی یوں جعفریؔ جیسے
تنہائی کے غاروں سے کوئی خود کو صدا دے
فضیل جعفری