نکھرا ہے اور نکھرتا رہے گا نگارِ فن
خوشبو ادب کودیتی رہےگی بہارِ فن
بحرِ فنا میں ڈوبنے والا تھا وہ مگر
اسکو لگا ریا ہے کنارے شعارِ فن
ہے جس کے دل میں عشق اسی کی ہے زندگی
سمجھا رہا ہے شام و سحر یہ مدارِ فن رہتا ہے
آتے ہیں یاد تیرے ہی پیکر کے سب خطوط
انگڑائی یاد آئے تو بہکے فگارِ فن
ہیں نا تمام قافیے مصرعوں کے ساتھ میں
معنی کا ربط لاتا ہے پھر بھی حصارِ فن
سیکھا ہےمیں نے اس کو بڑی مشکلوں کے ساتھ
تحفہ عجیب سا ہے سحر کا خمارِ فن
کہنے کو یوں تو لفظ کا جادو ہے میرے پاس
ہیرا ہے میرے واسطے کیف و قرارِ فن
چنتا ہوں سکھ کے پھول میں شبنم کی آنکھ سے
دیتا سکون دل کو بھی ایسے مدارِ فن
کھلتا نہیں سخی کہ حقیقت میں ہے یہ کیا
کیسے کہوں یہ کیسا عجب ہے بخارِ فن
سخی سرمست