غزل
نگاہ شوق میں سودائے جستجو کیا ہے
دل شکستہ میں اب اور آرزو کیا ہے
نہیں ہے شرط کوئی ذوق مے کشی کے لیے
نگاہ رند میں مے خانہ کیا سبو کیا ہے
بہار شرط ہے گلشن میں زندگی کے لیے
گلوں کے نام پہ تفریق رنگ و بو کیا ہے
پیام امن و محبت جو لے کے آئے تھے
انہیں سے پوچھو یہ ہر سمت ہاؤ ہو کیا ہے
عجیب آپ کا اعجاز وضع داری ہے
ہر ایک بات میں کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
نگہ میں بلبل و گلچیں کی ہے وقار ابھی
وگرنہ پھولوں کی گلشن میں آبرو کیا ہے
نہ کوئی شوق نہ حسرت نہ جستجو نہ خلش
بساط رقص پہ بسمل کی آرزو کیا ہے
بسمل اعظمی