نگاہ عشق میں ہر دل تماشا
تماشا ہے ارے غافل تماشا
ہمارے خوں میں ہے شامل تماشا
دکھاتا کیا ہمیں قاتل تماشا
ابھی تو تم اکڑ کر چل رہے ہو
دکھاۓ گی تمہیں یہ گِل تماشا
سر بازار مجھ کو بیچتے ہیں
لگا رکھا ہے لا حاصل تماشا
تماشے چار سو ہیں زندگی میں
مرے اندر بھی میرا دل تماشا
بھنور میں ہیں تو کیا آواز مت دو
نجانے کیا کرے ساحل تماشا
مناظر آئینوں میں ڈھونڈتا ہوں
جو پھر مانگے دل بسمل تماشا
نگاہیں پھیر لو مر جائیں گے ہم
لگا رکھا ہے کیا کل کل تماشا
تماشا زندگی کو جانتے ہو
ابھی باقی ہے اک کامل تماشا
تماشائ نہ کیوں بن جائیں خاور
جو کر پاۓ ہمیں قائل تماشا
ندیم خاور