نگاہ ناز کا حاصل ہے اعتبار مجھے
ہوائے شوق ذرا اور بھی نکھار مجھے
کبھی زباں نہ کھلی عرض مدعا کے لیے
کیا ہے پاس ادب نے بھی شرمسار مجھے
پرانے زخم نئے داغ ساتھ ساتھ رہے
ملی تو کیسی ملی دعوت بہار مجھے
پھر اہل ہوش کے نرغے میں آ گیا ہوں میں
خدا کے واسطے اک بار پھر پکار مجھے
بکھر رہی ہے محبت کی روشنی ہر سو
اڑا رہا ہے کوئی صورت غبار مجھے
نہ جانے کون سا ہے شعبدہ تعاقب میں
کہ آج اس نے کہا ہے وفا شعار مجھے
جو آپ آئیں تو یہ فیصلہ بھی ہو جائے
دکھائی دیتا ہے موسم تو خوش گوار مجھے
ہزار بار سکون حیات کی حد میں
ہزار بار کیا دل نے بے قرار مجھے
مرے شباب مری زندگی مرے ماضی
زبان حال سے اک بار پھر پکار مجھے
وہ بات جس پہ مدار وفا ہے یزدانیؔ
وہ بات کہنا پڑے گی حضور یار مجھے
یزدانی جالندھری