نہیں آساں کسی کے واسطے تخمینہ میرا
مقرر ہے دیار غیب سے روزینہ میرا
دم رخصت اگر میں حوصلے سے کام لیتا
پلٹ کر دیکھ سکتا تھا اسے آئینہ میرا
ہدف بن پائیں گی آنکھیں نہ میرے دشمنوں کی
مقابل ہے خدنگ خواب کے اب سینہ میرا
پڑا رہتا ہوں کنج عافیت میں سر چھپا کر
گزر جاتا ہے یوں ہی ثبت اور آدینہ میرا
بڑھاپا چھا رہا ہے میرے ہر جذبے پہ لیکن
جواں ہوتا چلا جاتا ہے پھر بھی کینہ میرا
بدل سکتا تھا میرے شہر کا آہنگ ساجدؔ
اگر ترتیب پا سکتا کبھی سازینہ میرا
غلام حسین ساجد