نہیں اب روک پائے گی فصیل شہر پانی کو
بہائے جا رہی ہے روشنی کی لہر پانی کو
مجھے بھی سرخ کرتی ہے یہ مشعل میری آنکھوں کی
کہ جیسے سبز کرتا ہے ضیا کا زہر پانی کو
کسی بے نام سیارے پہ اب بھی ابر چھایا ہے
ترستا ہے کئی دن سے اگرچہ دہر پانی کو
بہت اترا رہی ہے موج صحرا اپنے ہونے پر
رواں رکھتی ہو جیسے آج بھی یہ نہر پانی کو
نکلنا چاہتا ہے قید سے جیسے مشیت کی
پسند آیا نہیں ہے آسمانی قہر پانی کو
اسے وہ راکھ کرنے کے لئے تیار ہے ساجدؔ
مقید ہی نہ رکھے گا فقط یہ شہر پانی کو
غلام حسین ساجد