نہیں جان جہاں ایسا نہیں ہے
یہ بندھن ٹوٹنے والا نہیں ہے
نہ اُترے گا تمہارے پیار کا رنگ
یہ دِھیما ہے مگر کچا نہیں ہے
میں اپنی روح دے کر جسم لے لوں
یہ سودا اس قدر سستا نہیں ہے
کھلی ہیں کھڑکیاں لیکن مکاں گم
اُن آنکھوں کے تلے چہرہ نہیں ہے
جب اپنے اپنے مقصد یاد آئے
کھُلا، ہم میں کوئی رشتہ نہیں ہے
اَبھی اِک لمحہ پہلے سوچتے تھے
کہ دُنیا میں کوئی ہم سا نہیں ہے
اور اب یہ بھی نہیں ہے یاد ہم کو
وجود اپنا کہیں ہے یا نہیں ہے
جدا ہونے کا اس موسم میں خالدؔ
اسے بھی دکھ ہے پر اتنا نہیں ہے
خالد شریف