نہیں جو چیز جہاں میں اسے پکارے گئے
عجیب ذہنی اذیت میں دن گزارے گے
ہماری نیند۔ سپردِ خیالِ یار ہوئی
ہمارے خواب رقیبوں کے سر سے وارے گئے
غموں کے گہرے سمندر سے ہم نکل ائے
کسی نے ہم کو ڈبویا تھا جب کنارے گئے
بساطِ عشق کے پہلو سے ہم اٹھے ہی نہیں
کسی کی جیت کی خاطر خوشی سے ہارے گئے
پلٹ کے دیکھا جو اس نے تو کچھ تسلی ہوئی
کہ رائیگاں تو نہیں اشک سب ہمارے گئے
ہماری موت کا ملبہ بھی ڈالئے ہم پر
ہم اپنی زیست کے پیروں میں آ کے مارے گئے
شاہ دل شمس