نہ ہمدرد میرا نہ اپنا ہے کوئی
جو آکر محبّت کے دو بول بولے
یہی اِک سبب ہے، کہ اب چاہ کر بھی
کسی کا بھی احساں اُٹھاتی نہیں ہوں
اب آنکھوں میں سپنے سجاتی نہیں ہوں
میں اب کٹ کے رہتی ہوں سارے جہاں سے
اکیلی ہی دُکھ جھیلتی ہوں میں اپنے
اور اب خواب بھی کوئی بُنتی نہیں ہوں
زمانے کو جس کے لیے میں نے چھوڑا
کہ ہر ایک سے میں نے ناتا ہے توڑا
گیا ہے وہی زخمِ دل دے کے مجھ کو
اُسے یاد بھی اب میں کرتی نہیں ہوں
وہ جس نے کئی مجھ سے وعدے کیے تھے
وہی اپنے وعدوں پہ پورا نہ اُترا
دیا مجھ کو داغِ جدائی، وہ گہرا
کہ مجھ کو بھی اُس کی نہیں کوئی پروا
مِری زندگی کو، وہ کر کے ادھورا
گیا ہے وہ ایسا، کہ مُڑ کر نہ دیکھا
وہ اب ہے فقط ایک بھولی کہانی
بس اِک بیوفائی ہے اُس کی نشانی۔
صدف بنتِ اظہار