نہیں ھے غم جو مری راہ میں اشجار نہیں
میں بھی اب دھوپ میں سائے کا طلب گار نہیں
شہر کو چھوڑ کے صحرا کی طرف چلتے ہیں
سانس لینا تو کم ازکم وہاں دشوار نہیں
سب نے مانا ھے تجھے اپنا مسیحا جب سے
شہر کا شہر ہی بیمار ھے دوچار نہیں
اس نے رکھ دی ھے گناہوں میں بھی لذت ورنہ
کون ایسا ھے جو جنت کا طلب گار نہیں۔
تم نہیں ہو تو ہر اک چیز بری لگتی ھے
چاند نکلا ھے مگر حسرت۔دیدار نہیں
آسماں اوڑھ کے سوتے ہیں زمیں پر ہم لوگ
گھر بھی ایسا ھے کہ جس میں درودیوار نہیں
گر گیا کٹ کے وہیں شیریں کلامی سے مری
جو سمجھتا تھا مرے ہاتھ میں تلوار نہیں
سہیل اقبال