نہ جانے جائے کہاں تک یہ سلسلہ دل کا
وہ مل بھی جائے تو ملتا نہیں صلہ دل کا
برس رہی تھیں بہاریں ترس رہی تھی زمیں
سفر تمام ہوا پھول کب کھلا دل کا
کہاں ہے وہ شہ خوبی کہاں دریچۂ شب
گئے وہ دن کہ سماعت میں تھا گلہ دل کا
وہی خرابیٔ جاں کا سبب بھی ہے لیکن
قرار جاں ہے کہ یہ ہے معاملہ دل کا
اسے فسوں گر و بے مہر میں نہیں کہتا
فراق یار کا باعث ہے فاصلہ دل کا
تلاش اسی کی مسلسل اسی کو پا کر بھی
زمیں سے تا بہ فلک ہے یہ مشغلہ دل کا
کسی طلسم حجابات میں کوئی غم ہے
بھٹک رہا ہے خیالوں میں قافلہ دل کا
سید امین اشرف