غزل
نہ جانے کل ہوں کہاں ساتھ اب ہوا کے ہیں
کہ ہم پرندے مقامات گم شدہ کے ہیں
ستم یہ دیکھ کہ خود معتبر نہیں وہ نگاہ
کہ جس نگاہ میں ہم مستحق سزا کے ہیں
قدم قدم پہ کہے ہے یہ جی کہ لوٹ چلو
تمام مرحلے دشوار انتہا کے ہیں
فصیل شب سے عجب جھانکتے ہوئے چہرے
کرن کرن کے ہیں پیاسے ہوا ہوا کے ہیں
کہیں سے آئی ہے بانیؔ کوئی خبر شاید
یہ تیرتے ہوئے سایے کسی صدا کے ہیں
راجیندر من چندا بانی