loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

08/06/2025 01:23

نہ دامنوں میں یہاں خاک رہ گزر باندھو

نہ دامنوں میں یہاں خاک رہ گزر باندھو
مثالِ نکہتِ گل محملِ سفر باندھو

اس آئنہ میں کوئی عکس یوں نہ ابھرے گا
نظر سے سلسلۂ دانشِ نظر باندھو

جو صاحبان بصیرت تھے بے لباس ہوئے
فضیلتوں کی یہ دستار کس کے سر باندھو

سفیر جاں ہوں حصار بدن میں کیا ٹھہروں
چمن پرستو نہ خوشبو کے بال و پر باندھو

نہ ٹوٹ جائے کہ نازک ہے رشتۂ انفاس
طناب خیمۂ ہستی سنبھال کر باندھو

کہاں ہر ایک شناور گہر بکف نکلا
سمندروں سے توقع نہ اس قدر باندھو

ہر ایک ہاتھ میں ہے سنگ صد ہزار آشوب
پھر ایسے وقت میں شاخوں سے کیوں ثمر باندھو

نمک چھڑکتے رہو یہ بھی ہے مسیحائی
یہ کیا ضروری کہ مرہم ہی زخم پر باندھو

پھرے ہے کب سے پریشاں یہ زخم خوردہ ہرن
جنوں کو دشت سے لے جا کے اپنے گھر باندھو

گیا وہ دور کہ جب برف برف تھے الفاظ
گرہ میں اب یہ دہکتے ہوئے شرر باندھو

ادب نہیں ہے ریاضی کا مسئلہ یارو
ہر ایک شخص پہ کیوں تہمت ہنر باندھو

یہ صنف آبروئے‌ فن شاعری ہے فضاؔ
غزل کہو تو مضامین معتبر باندھو

فضا ابنِ فیضی

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم