Na Zoor Sahr Na Izn e Mukashfaat say tha
غزل
نہ زور سحر نہ ازن مکاشفات سے تھا
مرا وجود مرے اپنے حُسنِ ذات سے تھا
نہ واسطہ تھا اُسے میرے حال زار سے کچھ
نہ مجھ کو کام کوئی اُس کے التفات سے تھا
حصارِ وقت ہویدا تجلیات سے تھا
یہ آئینہ تو جھلا- جھل ہمہ جہات سے تھا
سپردِ نار جہنّم کیا مجھے آمیں
نفس گزیدہ تھا مقصد مرا نجات سے تھا
تمام عمر سمیٹے پھرا اثاثہ یہی
یہ میرا کون سا رشتہ غمِ حیات سے تھا
گزر چکے تھے مری فکرو فن سے ہفت افلاک
بلا کا دردِ مرے سر میں پچھلی رات سے تھا
سرفراز احمد فراز دہلوی
Sarfaraz ahmed Faraz Dehlvi