غزل
نہ سمجھے کوئی اس سے دشمنی ہے
مری اک کم سخن سے دوستی ہے
سبھی کے کام آئے ابن آدم
یہی دراصل حسن زندگی ہے
جسے پڑھنا ہو اس میں پڑھ لے سب کچھ
کھلی میری کتاب زندگی ہے
مرے کس کام کا ایسا سمندر
لب ساحل بھی جس کے تشنگی ہے
ہو روداد زمانہ کی جو مظہر
وہی دراصل روح شاعری ہے
مرے دل پر ہے جس کی حکمرانی
ابھی اس میں ادائے کمسنی ہے
ہے جس کا آج گرویدہ زمانہ
جہان رنگ و بو یہ عارضی ہے
اجم کی طرح ہے گونگا عرب بھی
یہ اس کی مصلحت یا بے حسی ہے
نہیں فرصت تن آسانی سے اس کو
الم انگیز یہ آدم کشی ہے
بپا ہے حشر سے پہلے ہی محشر
کہیں دختر کہیں مادر پڑی ہے
کوئی شطرنج بازی میں ہے مشغول
کسی کی جان پر اپنی بنی ہے
دعائے اہل غزہ سن لے یا رب
مصیبت کی یہ اک ایسی گھڑی ہے
انہیں ہے صرف تیرا ہی سہارا
جہاں بھائی سے بھائی اجنبی ہے
اگر اس میں ہو برقیؔ آدمیت
فرشتوں سے بھی افضل آدمی ہے
احمد علی برقی اعظمی