Niaz e Ishq ka Namoos Lutwana bhi aata Hay
غزل
نیازِ عشق کا ناموس لٹوانا بھی آتا ہے
جو ابن الوقت ہیں ان کو بدل جانا بھی آتا ہے
جو کی ہے دوستی سورج سے تو محتاط بھی رہیے
ملائم دھوپ کو، گلزار جھلسانا بھی آتا ہے
ذرا سی ٹھیس پر مانا بکھر جاتے ہیں ہم، لیکن
ہمیں ریزوں کو چن چن کر سنور جانا بھی آتا ہے
سرِ تسلیم خم رکھتے ہیں یہ تہذیب ہے اپنی
اگر فرمان بےجا ہو تو ٹھکرانا بھی آتا ہے
بیابانوں، کہستانوں میں بھٹکے لاکھ یہ لیکن
دلِ ناشاد کو گھر لوٹ کے آنا بھی آتا ہے
تبسؔم اعظمی
Tabasum Aazmi