غزل
نیرنگیٔ بہار جنوں ہم بھی دیکھ لیں
کیا گل کھلائے گریۂ شبنم بھی دیکھ لیں
سنتے ہیں وہ ہے دشمن ایمان و آگہی
موج مئے نشاط کا عالم بھی دیکھ لیں
لے سر اٹھا رہے ہیں ترے آستاں سے ہم
ہوتا ہے کون عشق کا محرم بھی دیکھ لیں
شاید غم جہاں کے اسیروں کو راس آئے
آشفتگئ گیسوئے پر خم بھی دیکھ لیں
پالا پڑا ہے حسن تغافل شعار سے
ضبط جنون عشق کا دم خم بھی دیکھ لیں
آوارگیٔ فصل چمن چار دن سہی
کچھ ارتباط شعلہ و شبنم بھی دیکھ لیں
تیرے خیال ہی سے نہ ہوں راحتیں تمام
تجھ کو بھلا کے عشق کا عالم بھی دیکھ لیں
مدت ہوئی کہ آنکھ سے ٹپکا نہیں لہو
کس حال میں ہیں اہل وفا ہم بھی دیکھ لیں
وہ جن کو اعتماد خلوص وفا نہیں
فرقت میں چشم ناز کو پر نم بھی دیکھ لیں
کیلاش ماہر