غزل
نیند سے مجھ کو جگاتا ہے چلا جاتا ہے
وہ مرے خواب میں آتا ہے چلا جاتا ہے
اور میں ٹیک ہٹاتا نہیں دروازے سے
عشق آواز لگاتا ہے چلا جاتا ہے
چھیڑ وہ راگ لہو آنکھ سے نکلے دل کا
تو بھی کیا گیت سناتا ہے چلا جاتا ہے
میرا کردار کہانی میں فقط اتنا ہے
کوئی روتا ہوا آتا ہے چلا جاتا ہے
روز اول کا تھکا ہارا مسافر اک دن
بوجھ کاندھوں سے گراتا ہے چلا جاتا ہے
ایک طبقہ تو کئی نسل سے اس دنیا سے
خواب آنکھوں میں سجاتا ہے چلا جاتا ہے
تجھ کو معلوم نہیں تیری طلب کا لمحہ
کتنی صدیوں کو مٹاتا ہے چلا جاتا ہے
جس طرح سے یہ زمیں گھوم رہی ہے ساحر
بات ایسے وہ گھماتا ہے چلا جاتا ہے
جہانزیب ساحر