وابستہ ہو کے ایک ترے آستان سے ہم
آزاد ہو گئے ہیں غمِ دو جہاں سے ہم
برسوں وہاں خزاں کا اثر تک نہ آ سکا
ہنس کر گزر گئے ہیں جنوں میں جہاں سے ہم
تقدیر کیا ہے اس کو سمجھنے سے فائدہ
آخر قفس میں آ ہی گئے آشیاں سے ہم
شاید جبیں سے مہر قیامت میں ہو طلوع
اک داغ لے چلے ہیں ترے آستاں سے ہم
سجدے نے فاصلے کو برابر تو کر لیا
کچھ دور رہ گئے تھے ترے آستاں سے ہم
ہم کو ملی ہے فطرتِ خود دار اے فدا
بچ کر گزر رہے ہیں ہر اک کارواں سے ہم
فدا خالدی