واقعہ ماضی کا ہے لگتی ہے جیسے کل کی بات
کیا بتاؤں کتنی گہری تھی وہ دل کی واردات
بعد مرنے کے ہی شاید زندگی آسان ہو
زندگی میں درد سے، ممکن نہیں ہر گز نجات
لگ رہا ہے بے وفائی کر رہے ہو آج کل
کچھ زیادہ ہی دکھانے لگ گئے ہو التفات
آسماں سے اک ستارہ ٹوٹنے کا غم نہیں
ٹوٹتے ہیں جب ستارے پھیلتی ہے کائنات
اب یہاں مہر و وفا کی کوئی قیمت ہی نہیں
مال و زر ہو پاس جس کے اب وہی ہے باصفات
حشر میں خاکی بدن کو پھر سے جوڑا جائے گا
جسم خاکی سے کہاں ملتی ہے بندے کو نجات
کچھ ہے اسکی جیب میں تو کچھ ہے اسکی جیب میں
اس لیے تو ہیں بقایا غیر ملکی واجبات
اک نظر ڈالی تھی بچپن کی طرف شمسؔہ نجم
یاد آنے لگ گئے ہیں عمر بھر کے واقعات
شمسہ نجم