غزل
واقعی یہ جو گنہگار نظر آتے ہیں
سارے اوپر سے چمکدار نظر آتے ہیں
آپ کے پاس ہیں ہر رنگ کی خبریں صاحب
آپ تو آج کا اخبار نظر آتے ہیں
بیٹھی ملتی ہے رعایا بھی جہاں گھٹنوں پر
آج انھیں شاہوں کے دربار نظر آتے ہیں
سبکو فکشن میں ضرورت نے جکڑ رکھا ہے
اس میں دوچار جو کردار نظر آتے ہیں
اصل میں یہ بھی ہیں مزدور دہاڑی والے
آپ لوگوں کو جو فنکار نظر آتے ہیں
کل تلک لوگ جو ٹکڑوں پہ پلا کرتے تھے
آج وہ سارے ہی زردار نظر آتے ہیں
خون سے اپنے مرے پرکھوں نے سینچا تھا جسے
وہ بیابان بھی گلزار نظر آتے ہیں
زندگی میں نہ کبھی بہر عیادت آئے
بعد مرنے کے جو حقدار نظر آتے ہیں
ہر کسی کو بری لگتی ہے یہ دنیا نصرت
پھر بھی سب اس کے طلب گار نظر آتے ہیں
نصرت عتیق گورکھپوری