وحشی تھے مگر بوئے گل کی طرح سے جہاں میں ہم
نکلے تو پھر کے آئے نہ اپنے مکاں میں ہم
شیدائے روئے گل نہ ہیں شیدائے قد سرو
صیاد کے شکار ہیں اس بوستاں میں ہم
نکلی لبوں سے آہ کہ گردوں نشانہ تھا
گویا کہ تیر جوڑے ہوئے تھے کماں میں ہم
آلودۂ گناہ ہے اپنا ریاض بھی
شب کاٹتے ہیں جاگ کے مغ کی دکاں میں ہم
ہمت پس فنا سبب ذکر خیر ہے
مردوں کا نام سنتے ہیں ہر داستاں میں ہم
آتشؔ سخن کی قدر زمانے سے اٹھ گئی
مقدور ہو تو قفل لگائیں دہاں میں ہم
حیدر علی آتش