loader image

MOJ E SUKHAN

ورید اللہ ورید: ایک نئے لہجے کی صداقت

ورید اللہ ورید: ایک نئے لہجے کی صداقت

انجم سلیمی

نور پور تھل، ضلع خوشاب کی زرخیز زمین نے ہمیشہ کوئی نہ کوئی تازہ آواز اردو ادب کو عطا کی ہے۔ حالیہ برسوں میں جو نوجوان آواز سب سے منفرد اور اندر سے جلتی ہوئی سنائی دیتی ہے، وہ ورید اللہ ورید کی ہے — ایک ایسا شاعر، جو محض لفظوں کی نفسیات کا استعمال ہی نہیں جانتا، بلکہ لفظوں میں چھپی خامشیوں کو بھی بولنا سکھاتا ہے۔
ورید اللہ ورید کی شاعری موجودہ دور کی پیچیدگیوں، روحانی تضادات، داخلی شکستوں، اور سماجی الجھنوں کا ایک مکمل بیانیہ ہے۔ ان کا کلام صرف جذبات کی بازیگری نہیں بلکہ ایک باطنی راست گوئی ہے۔ ایک مصرع میں وہ تہذیب کے زوال کو بیان کرتے ہیں، تو دوسرے میں ماں کی محبت کو حشر کے خوف سے زیادہ سچا دکھاتے ہیں
دنیا ترے احسان اتر جائیں گے لیکن
ماں کی کوئی تکلیف بسر مجھ سے نہ ہو گی
یہ احساس، جس میں مامتا، عقیدت اور اخلاقی نرمی یکجا ہیں، آج کے کٹھور اور خودغرض ماحول میں ایک شفاف قطارِ اشک کی مانند ہے۔
ورید کے یہاں مذہب، محبت، غربت، اور فطرت—سبھی مضامین ایک انفرادی داخلی صداقت کے ساتھ آتے ہیں۔ ان کے اشعار نہ صرف مشاہدے کے ہیں بلکہ تجربے کے ہیں؛ جیسے
سجدہ کرتا ہوں تو ماتھے سے لہو رستا ہے
بندگی مسجدِ اقصیٰ میں کھڑی ہو جیسے
یہاں سجدہ محض عبادت کا عمل نہیں، ایک خوں رنگ صداقت ہے، جس کے سائے میں ایک شکستہ روح تڑپتی ہے۔
اسی طرح ان کا یہ شعر
"زندگی حشر کا چھوٹا سا ٹریلر ہی نہ ہو”
موجودہ دنیا کے فکری المیے کا نہایت فطری اور بےساختہ اظہار ہے۔ ورید کا بیانیہ کسی کمرشل مزاج یا شعری شعبدہ بازی کا مرہونِ منت نہیں۔ وہ زخمی لمحوں کو، گمشدہ بدنوں کو، اور مدھم ہوتی پہچانوں کو شاعری میں وہی درجہ دیتے ہیں جو کلاسیکی شعرا کسی محبوب کے تصور کو دیتے تھے۔
ان کے ہاں وقتی جذبات کے بجائے تہذیبی تجربات کا عکس زیادہ گہرا ہے۔ جیسے:
آخری فلم بناؤں گا خدائے غربت
جس میں اک مرکزی کردار بھکاری ہو گا
یہ وہ مکالمہ ہے جو ایک شاعر اپنے عہد سے کر رہا ہے—نہایت سنجیدگی، سادگی اور سچائی کے ساتھ۔
ورید کی زبان میں نہ تصنع ہے نہ نعرہ بازی۔ ان کا لہجہ متانت بھرا، مگر درد آشنا ہے۔ وہ نہ صرف اپنے جذبات کا، بلکہ عہد کے اجتماعی کرب کا بھی ترجمان بنتا ہے۔ ان کی نظموں میں ہمیں یونانی استعارے، دمشقی لہجہ، اور تاتاری نقوش ملتے ہیں؛ یہ سب ان کے فکری پس منظر اور مطالعے کی وسعت کا پتا دیتے ہیں
اس کی تحویل میں یونان کے بت رہتے ہیں
جنبشِ لب سے ارسطو کی کتھا جاگتی ہے
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ورید اللہ ورید کی شاعری ہمارے عہد کی ان گنت غیر کہی صداؤں کو ایک باوقار، تخلیقی اور پراثر آواز دیتی ہے۔ وہ اپنے وقت کی ننگی سچائی کو چپ کی زبان میں بیان کرتے ہیں—جس چپ میں درد کی چیخیں، لمس کی حدت، اور خوابوں کا بکھراؤ، سب کچھ سنائی دیتا ہے۔
ورید ایک ایسے شاعر کے طور پر سامنے آتے ہیں جو صرف پڑھا نہیں جاتا، محسوس کیا جاتا ہے۔ ان کی شاعری ہماری موجودہ نسل کی نمائندہ تو ہے ہی، مگر آنے والے وقت کے لیے بھی ایک دیرپا جمالیاتی سند کی حیثیت رکھتی ہے۔
چند منتخب اشعار آپ دوستوں کی نذر
یہ کہیں تجھ پہ بھروسے کا ہی فقدان نہ ہو
تیری پیچیدگی حیرت نہیں لگتی ہے مجھے
سجدہ کرتا ہوں تو ماتھے سے لہو رستا ہے
بندگی مسجدِ اقصیٰ میں کھڑی ہو جیسے
گزشتہ لمس کی پیچیدگی مٹانا تھی
ترے بدن کی ضرورت کا اشتہار دیا
روز یہ خوف پنپتا ہے مرے سینے میں
زندگی حشر کا چھوٹا سا ٹریلر ہی نہ ہو
وہ ٹمٹماتے دیے اور پہاڑی گاؤں کی شام
مزاج سانولی عورت میں رنگ بھرنے لگا
وہ آنکھ نم رہی تو تعجب نہیں کہ میں
افطار سفر کی دعا بھول جاؤں گا
زمین ٹوٹے ہوئے آئنے میں ڈھلتی ہوئی
کہ جس کے عکس میں بیمار ایک عورت ہے
دنیا ترے احسان اتر جائیں گے لیکن
ماں کی کوئی تکلیف بسر مجھ سے ؟ نہ ہو گی
جب نہ اجرت سے گھر چلا تو ورید
ایک بیٹے کو باپ یاد آیا
آخری فلم بناؤں گا خدائے غربت
جس میں اک مرکزی کردار بھکاری ہو گا
اس کی تحویل میں یونان کے بت رہتے ہیں
جنبشِ لب سے ارسطو کی کتھا جاگتی ہے
اس نے بدن سے ذائقے محدود کر لیے
میں نے بھی احتجاج میں چائے انڈیل دی
اداس لمس کی حدت کو ترک کرتے ہوئے
سہاگ رات کو مایوس کر رہا ہوں میں
شدتِ انتظار کے معنی
ٹھیک سے وہ گلی نباہتی ہے
چپ چاپ جا رہی تھی کہیں خواب بیچنے
کتوں کی بھونک رات کا نقصان کر گئی
زندگی تجھ سے بحث کرنے کو
حادثوں کی کتاب لایا ہوں
تم تو آتے ہو مجھے چھو کے چلے جاتے ہو
میں وہ لمحات کئی روز بسر کرتا ہوں
زہر اگلے جو تیرے بارے میں
منہ پہ رکھ کے چپیڑ دیتا ہوں
جو معترض ہے مکمل دلیل پیش کرے
میں بار بار کسی کو صفائی دیتا نہیں
منظر کا تحفظ بھی ضروری تھا سو بروقت
تصویر کے اطراف میں کھدوائی گئی خاک
تیرے انفاس سے ظلمات کی بو آتی ہے
تو کوئی نقش ہے اور نقش بھی تاتاری کا
دمشقی طرز کے خنجر چلانے والوں میں
تری نگاہ کا کوئی جواب ہے ہی نہیں
تمھارے بعد زمیں پر قیام مشکل تھا
تمھارے بعد ہواؤں پہ گھر بنائے گئے