خیرالابرار
ڈاکٹر وزیر آغا ایک دبستان تھے ، ایک عہدساز شخصیت تھے، کردار ساز تھے۔ اگرچہ مادی طور پر ان کا رابطہ ہم زندہ لوگوں سے کٹ چکا ہے لیکن روحانی طور پر وہ اب بھی ہمارے درمیان موجود ہے اور ہمیشہ رہیں گے ۔ جب تک اردو ادب ہے، وزیر آغا کا نام زندہ رہے گا۔ (۱) وزیر آغا کا نام اُردو ادب میں چار چیزوں کی وجہ سے زندہ رہے گا۔
۱۔ تنقید ۲۔ انشائیہ نگاری ۳۔ شاعری ۴۔ مجلہ اوراق
جن کے بارے میں ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں:
’’ڈاکٹر وزیر آغا نے جنوری ۱۹۶۶ء میں ’’اوراق‘‘ کا اجراء کیا جو فکر نو اور ادب میں جدیدیت کا ترجمان تھا۔ اوراق میں اردو زبان و ادب کے ساتھ ساتھ بعض فلسفیانہ مباحث پر معروف اہل قلم کے مذاکرے بھی شائع کیے جاتے تھے۔ یوں مسئلہ کی مختلف جہات روشن ہوجاتیں۔ اوراق کے متعدد خاص نمبروں میں سے ’’جدید نظم نمبر ۱۹۷۷‘‘ خاصہ کی چیز ہے۔ جدید نظم سے وابستہ اہم مسائل و مباحث پر نامور اہل قلم کے مقامات آج بھی قابل اعتنا ہیں۔ آغاز میں ڈاکٹر وزیر آغا کے ساتھ عارف عبدالمتین شریک مدیر تھے۔ ڈاکٹر وزیر آغا اس وجہ سے بھی یاد رکھیں جائیں گے کہ بطورِ مدیر اوراق میں متعدد نئے لکھنے والوں کو شائع کرکے ان کے قلم کو اعتماد بخشا۔ خردافروزی کے سلسلے میں بھی اوراق کی خدمات کا اعتراف لازم ہے۔ ‘‘(۲)
یہ اس شخص کی رائے ہے جو وزیر آغا دشمنی میں تقریباً سب سے آگے ہے جس نے نہ صرف وزیر آغا کی شخصیت کو نشانہ بنایا بلکہ اس کی تخلیقات کو بھی نہیں چھوڑا لیکن اس شخصیت کی اس جہت کے بارے میں کتنی سچی اور کھری بات کی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کی نظم ’’آدھی صدی کے بعد‘‘ کے بارے میں ڈاکٹر سلیم اختر کی رائے اور تبصرہ ذرا پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ مندرجہ بالا رائے کتنی صداقت پر مبنی ہوگی۔ جب اس طرح کی شخصیت اس کی نظم کے بارے میں یہ رائے دیتی ہو:
’’ڈاکٹر وزیر آغاکی طویل نظم ’’آدھی صدی کے بعد‘‘ سے یہ امر بلیغ آشکار ہوتی ہے کہ ادنیٰ تخلیقی صلاحیتوں کا حامل شاعر کیسے عظیم موضوع کو اپنی تخلیقی شخصیت کی پست سطح پر لا کر اس کا حلیہ بگاڑ دیتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اسے ’’داخلی اور دیسی‘‘ قرار دیا ہے۔ اگر ڈاکٹر وزیر آغا کا داخل محض پانی ہی ہے تو یقینا یہ شخصیت کی تخلیقی توانائی کا استعارہ بننے والا صاف شفاف پانی نہیں بلکہ ۔۔۔۔رجحانات کی دلال ہے، جبھی تو اس میں غلاظت ہے۔
اچانک مجھے جیسے ابکائی ہوئی
غلاظت
مرے منہ سے باہر اچھل کر
مجھے ڈانٹتی
۔۔۔۔۔یا پھر تعفن ہے:
اور تعفن
مجھے اپنی مٹھی میں لے کر
مسلتا
۔۔۔ اور وزیر آغا ہی کی ان سطروح کے بموجب:
گالی ہے
بدبو ہے
دھبہ ہے
۔۔۔۔شاید اس لیے ان کے بقول:
اپنی غلاظت میں ہر روز
رشنان کرتا ہے
اپنے تعفن کا
خود پاسباں ہے
غلاظت، تعفن، گالی اور بدبو جیسے کلیدی الفاظ سے مرتب ہونے والی تخلیقی شخصیت کی اساس میں خوف بھی شامل ہے:
کہ میں آج تک
خوف کی کپکپی
اپنے سارے بند میں رواں دیکھتا ہوں
ان منفی رجحانات سے تشکیل پانے والی شخصیت اگر زندگی کے خوبصورت پہلوؤں کو نہیں دیکھ پاتی تو اس پر تعجب نہ ہونا چاہیے۔ سو فرماتے ہیں:
حیات
ایک پھپھوندی ہے
اس لحاظ سے تو یہ نظم بھی پھپوندی لگی تخلیقی شخصیت کا کارنامہ قرار پاتی ہے۔ اس پر مستراد شاعر کا اعتراف!
میں خود ایک لنگڑاتا قلم ہوں۔ قلم کی فرائیڈین علامتی حیثیت بھی غور طلب ہے۔ اس ضمن میں مزید لکھنے کی گنجائش ہے مگر ہر ۔۔۔۔۔۔ پالتو نقاد سے ڈر لگتا ہے۔ (۳)
سلیم اختر صاحب کا یہ رویہ وزیر آغا کے بارے میں اکثر رہا اور پالتو نقاد کوئی اور نہیں انور سدید صاحب ہیں جواب نہیں رہے ۔ سلیم اختر صاحب کا اس نظم کے بارے میں ایسا رویہ رکھنا بالکل بھی انصاف پر مبنی نہیں ہے کیونکہ ڈاکٹر وزیر آغاصاحب کی یہ نظم کئی ایک حوالوں سے اہم ہے۔ اس نظم کی علامتی کائنات اور نظم میں موجود تلمیحاتی انداز قابل ستائش ہے۔ وہ نروان حاصل کرنے کے لیے کیا کرتے ہیں ۔ ذرا یہ مصرع پڑھیں:
اور پھر ۔۔۔ یوں ہوا
میں نے ایک بار پھر
بڑکا بہروں بدلا