loader image

MOJ E SUKHAN

وزیر آغا کی ایک طویل نظم ’’آدھی صدی کے بعد ‘‘ ایک تنقیدی مطالعہ


خود اپنے ہی اندر سے باہر نکل کر
وہاں جس جگہ اب سے پہلے
خنک ریت کا ایک صحرا بچھا تھا
میں پتوں کا اک تاج
سرپر سجائے
کھڑا ہوگیا
پھر میں
اپنے ہی چھتنار کی ٹھنڈی چھاؤں میں
اپنی ریشِ مبارک کے سائے میں
دھرتی کی مسند پہ
تشریف فرما ہوا
آلتی پالتی مارکر
ایسے بیٹھا کہ جیسے ازل سے
یہی میرا مسکن تھا
آنکھوں کو مسیچ
میں اپنے محور پر
گردش ہی کرنے لگا
اپنے ہونے کے ٹوٹے ہوئے آئینے میں
خود اپنے ہی منظر کو
تکنے لگا ! (۴)
یہ تو اپنی ذات سے باہر آکر خود کو تلاش کرنے کا حوالہ ہے اور نروان حاصل کرنے کا طریقہ ہے۔ لیکن ڈاکٹر وزیر آغا بڑکے درخت کو علامت بناکر اپنی ذات کو امر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بڑکا درخت اسے روز اپنے پاس بلاتا ہے۔ وہ خود بھی اس کے چرن چھومتا ہے۔ بڑکا درخت اس سے بہت کچھ کہتاتھا وہ اس کو دیکھتا تھا مگر اس کو تو کچھ پتہ ہی نہیں تھا کہ بڑ کا درخت کیا کہہ رہا ہے ، اس کا مطلب کیا ہے۔ لیکن جب وقت گزر جاتا ہے اسے یقین ہوجاتا ہے کہ بڑ کی باتیں بے معنی نہیں تھیں وہ مجھ سے جدا نہیں تھا میں اس کے وجود اور وہ میرے وجود کا ایک حصہ تھا اور وہ روز اُسے اپنے پاس بلاتا تھا۔ یہاں ایک بات یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ درخت ’’ماں‘‘ کی علامت بھی ہے۔ (۵)
وہ ہر روز مجھ کو اُٹھا کر
گلے سے لگاتا
یہ کہتا
مجھے اپنے تن سے جدا مانتے ہو؟
سنو!
میں کوئی خشک بے برگ بنجر نہیں ہوں
جسے تم اٹھانے کو ہر روز آؤ
میں زندہ ہوں
ہر دم تمہیں
اپنی شاخوں ، جڑوں
سبز پتوں میں
نیلے سمندر کی صورت
رواں دیکھتا ہوں
مگر تم کچھ جانتے ہی نہیں ہو ۔۔۔۔۔
وہ ہر روز مجھ سے یہ کہتا
مگر میں تلاطم تھا
اپنی ہی آواز میں
مجھے بڑ کی باتیں
فقط ایک مجذوب کی بڑ لگی تھیں
وہ بڑ
کب کا صحرا کے سینے میں گم ہوچکا ہے
مگر آج میں جانتا ہوں
وہ میری ہی تصویر تھا
میرا اوتار تھا
میرا چہر ہ تھا وہ
میں نے خود اس کوبھیجا تھا
اپنی طرف
اسے خود بلایا تھا اپنی طرف! (۶)
ڈاکٹر وزیر آغا نے اس نظم کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے اور ہر حصے کو ایک علامت کے طور پر لیا ہے۔
۱۔  جھرنے (بچپن)
۲۔  ندی (جوانی)
۳۔  دریا (زندگی کی بے پناہ مصروفیتیں)
۴۔  سمندر (جز کا کُل میں مل جانا)
ڈاکٹر وزیر آغاخود بھی اس حوالے سے رقم طراز ہیں:
’’یہ نظم پانی کے دھارے کو بطورِ ایک تمثیل پیش کرتی ہیں۔ پانی کا دھارا کبھی جھرنوں کی صورت میں ہمکنار اور اچھلتا دکھائی دیتا تھا۔ یہ اس کا بچپن تھا۔۔۔۔ندی میں ڈھل کر چٹانوں میں سرپھوڑتا اور کروٹیں لیتا نظر آتا۔ یہ اس کی جوانی تھی۔ پھروہ طویل و عریض میدانوں میں بڑے اعتماد سے معروف ِ سفر ہوا اور آخر آخر میں ان گنت چھوٹے چھوٹے دھاروں میں بٹ کر سمندر میں اترتا چلاگیا۔ مگر میں نے محسوس کیا کہ جھرنا، ندی، دریا اور سمندر تو محض ’’سانچے‘‘ میں۔ پانی کی سیال رو جب گزرتی ہے تو ہر سانچے میں ڈھل کر اپنی صورت تبدیلی کرلیتی ہے۔‘‘(۷)
ڈاکٹر وزیر آغاکا یہ تجزیہ بڑا معنی خیز ہے ۔ انسان بچپن میں بے پروا ہر شے سے بے نیاز ہو کر رہتا ہے ۔ خوشی خوشی اپنی زندگی کے دن گزارتا ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے بچپن کے حوالے سے بڑی خوبصورت چیزیں پیش کی ہیں ۔ اس میں اگر ایک طرف ثقافتی رنگ ہے تو دوسری طرف ماں کی محبت کی جھلک بھی نمایاں ہے۔
معابیل گاڑی سے میں کھود کر
باہیں کھولے ہوئے اپنے گھر میں
لپک کر گھسوں
ماں کے سینے سے ٹکراؤں
ہونٹوں کے حیرت سے کھلنے کا
اور پو کے پھٹنے کا منظر
میں دیکھوں
مسرت کی زرتاد کرنوں میں
لیٹے ہوئے
فرم بوسوں کی شبخ کو
الجھے ہوئے اپنے بالوں پہ
گرتے سنوں
پھر میں ہنسنے لگوں! (۸)
ڈاکٹر وزیر آغاکی اس نظم کا اپنا ایک علامتی نظام ہے جو اس مجموعے میں پھیلا ہوا ہے ان کی علامت فطرت کے گہرے مشاہدے کے ساتھ ساتھ انسانی تاریخ کا مطالعہ اورثقافتی توانائی کی مظہر ہیں۔ یہ علامتی نظام استعمال کی چابکدستی اور مہارت کے ساتھ ان کے سبھی مجموعوں میں فنی خوبصورتی کی ایک انفرادی سطح قائم کرتا ہے۔ ان کی نظموں کے دوسرے مجموعوں کی طرح یہ نظم بھی فکری ، فنی اور اسلوبی سطح پر نہ صرف ان کے اپنے شعری سفر کی ارتقائی صورت حال کی وضاحت کرتے ہیں۔ بلکہ جدید اردو نظم میں مکمل چہرگی اور فنی و فکری اعتبارکی معتبر گواہی بھی دیتے ہیں۔ (۹) ڈاکٹر وزیر آغا کی یہ نظم فکری حوالے سے ایک اہم نظم ہے۔ اس میں ہمیں اس کی زندگی کی مختلف تصویریں ملتی ہیں۔ جن میں ایک تصویر زندگی کی ہے ۔ اس نظم میں زندگی کو ایک پھپھوندی کہا ہے، ڈائن کہا ہے، ایسی ڈائن جو خود اپنے اعضاء کو کھاتی ہے لیکن اس کے ساتھ کچھ اور تصویریں بھی ہیں۔ مثلاً:
میں حیران تھا
دیکھتا تھا
کہ اندھے خلا میں
زمین ایک کنکر ہے
کنکر یہ تازہ پھپھوندی لگی ہے
حیات
اک پھپھوندی ہے
ڈائن ہے
اپنے ہی اعضاء کو
رغبت سے کھاتی ہے
کیڑے، مویشی، پرندے
زمین پر بچھی گھاس
پودے
ہر اک زندہ شے
زندہ شے کا حوالہ بنی ہے
عظیم اور جی دارانسان
تو اپنا بھی قاتل ہے
اپنے ہی ساتھی کا
تازہ لہو پی رہا ہے
یہ عنصریت
گالی ہے
بدبو ہے
دھبہ ہے
اپنی غلاظت میں ہر روز
اشنان کرتا ہے
اپنے تعفن کا
خود پالیساں ہے! (۱۰)
انسان اپنے ماحول میں بگاڑ پیدا کررہا ہے ۔ بگاڑ کی ایک وجہ زندگی بھی ہے۔ زندگی وجہ اس لیے ہے کہ ہر انسان اپنی زندگی کی بقا کے لیے دوسروں کی زندگی سے کھیلتا ہے اور اگر وقت آئے یا موقع ملے تو اس کی زندگی ختم کرنے سے بھی نہیں کتراتا۔ انسان ہی انسان کا قاتل بنا ہے اور انسان ہی اپنی غلاظتوں میں ڈوبا ہے ۔ ہرروز اشنان کرتا ہے لیکن اس کا ضمیر کبھی جاگتا نہیں اس میں چند ایک ہی ایسے ہیں جن کا ضمیر ان کو اندرکی غلاظتیں نکال پھینکنے کا کہتا ہے۔ انسان کی اندرونی غلاظتیں ہی اس کو انسانیت کی معراج سے گراد یتی ہیں۔
اچانک مجھے جیسے ابکائی آتی
غلاظت
مرے منہ سے باہر اچھل کر
مجھے ڈانٹتی
اور تعفن
مجھے اپنی مٹھی میں لے کر
مسلتا
مرے چاروں جانت
مکانوں کے پنجر
کتابوں کے معبد
دعاؤں کے گنبد
بسیں، گاڑیاں
اور فقیروں کے گلے
مرامنہ چراتے
یہ کہتے
کہاں پھر رہے ہو (۱۱)
غلاظت کا باہر اچھل کر ڈانٹنا اس بات کی علامت ہے کہ انسان کے اندرون کو ان غلاظتوں سے پاک رہنا چاہیے۔ کیونکہ انسان کا باطن ہی اس کی صحت مند زندگی کی علامت ہے۔ انسان کا اندرون اگر ان غلاظتوں سے بھر جائے تو اس کی زندگی منفی راستوں پر نکل پڑتی ہے اور یہ اس کی زندگی کی بربادی کی علامت ہے اور یہ ایک ایسا طوفان ہے جس سے کوئی بھی بچ نہیں سکے گا۔
اور میں سوچتا
اس قیامت سے
کوئی بھی زندہ نہیں بچ سکے گا
تو پھر فائدہ
کیوں میں بے کار
رسّی کے زینے پہ چڑھتا رہوں؟ (۱۲)
ڈاکٹر وزیر آغاکی اس نظم کے کئی ایک حوالے بنتے ہیں۔ ان کا پہلا حوالہ ان کا علامتی اظہار ہے جس میں جھرنے، ندی، دریا اور سمندر کو زندگی کی مختلف جہتوں کے لیے بطورِ علامت استعمال کیا ہے۔ اس نظم کا دوسرا حوالہ رسّی کی طوالت ہے اور تیسرا اہم حوالہ سوانحی تجربہ ہے۔ جس میں وزیر آغا نے اپنی زندگی کو پیش کیا اور کامیاب رہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں:
’’وزیر آغا علامت کو تخلیقی انداز میں استعمال کرنے والے جدید نظم نگار ہیں۔ نظم ان کے روحانی کشف کا اظہار ہے۔ ’’آدھی صدی کے بعد‘‘ اردو کی پہلی طویل نظم ہے جس میں انہوں نے فکری اور سوانحی تجربہ کو شعری روپ دیا ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے میراجی کے بعد جدید نظم کو فکری اور معنوی طور پر شاید سب سے زیادہ متاثر کیا اور ان کا فن نئے آفاق کی طرف سفر کر رہا ہے۔‘‘(۱۳)
ڈاکٹر انور سدید کی بات اگرچہ مبالغے پر مبنی ہے۔ لیکن اس نظم میں موجود سوانحی تجربے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس نظم میں وزیر آغا نے پلٹ کر اپنی زندگی پر نظر ڈالی ہے ۔ اس نے اس صورت حال کو پہاڑ پر چڑھنے اور دوسری طرف اُترنے سے تشبیہ دی ہے۔ دوسری طرف اترنا وقت کا تیزی سے گزرنا ہے۔ جو اس نظم کا ایک حوالہ ہے۔ وقت گزر رہا ہے ۔ اسے پتہ بھی نہیں کہ سب کچھ خاک میں مل چکا ہے ۔ وہ گھر لوٹ آیا مگر کچھ بھی باقی نہیں تھا۔
آج آدھے صدی کی مسافت پہ
پھیلے ہوئے
ایک لمبے سفر سے
میں لوٹا ہوں
اور گاؤں
آنسو کے موٹے سے قطرے کی صورت
مری بھیکی پھلکوں کی
حلیمن سے لگ کر کھڑا ہے
کسی صاف شفاف بلّور
مہ قد کی صورت مرے سامنے ہے
مری ماں کو رُخصت ہوئے
جیسے لاکھوں برس ہوچکے ہیں
پرانے مکانوں
درختوں، پرندوں میں
کوئی بھی باقی نہیں ہے
مرے شوخ بچپن کی
اب راکھ تک
اُڑ چکی ہے (۱۴)
بچپن کی راکھ اُڑنا اور ماں کو رُخصت ہوئے لاکھوں برس کا گزر جانا اس بات کی علامت ہے کہ انسان وقت کے سامنے بے بس ہے۔ انسان وقت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ان کے آنسو وقت کے بیتے ہوئے لمحات کو واپس نہیں لاسکتے۔ بلکہ وقت اور تیزی سے بھاگنا شروع کرتا ہے ۔ انسان کے بس کی بات نہیں ہوتی انسان کی زندگی ختم ہوتی جاتی ہے اور ایک دن ہم راج اسے یاد دِلانے کے لیے سامنے آتاہے کہ آپ مجھ کو بھلا چکے ہیں۔ لہٰذا میں بار بار آپ کے پیچھے آؤں گا ، چھوڑوں گا نہیں ، میں آپ کو اپنے ساتھ لے جاؤں گا کیونکہ میں کسی بھی قیمت تمہیں چھوڑنے والا نہیں ہوں۔
آخری بار
اس نے مجھے
قہر آلود نظروں سے اس طور گھورا
کہ میں آج تک
خوف کی کپکپی
اپنے سارے بند میں رواں دیکھتا ہوں
میں پٹڑی پہ بیٹھا تھا
وہ
اک سیہ فام عفریت کے روپ میں
ساری دنیا کو لرزاتی
پٹڑی کی چیخوں کے کہرام میں
ایک وحشت زدہ تیز سیٹی بجائی
مری سمت آئی
بس اِک لمحہ
جانے مجھے کس نے پٹڑی سے جیسے اُٹھا کر
ہوا میں اُچھالا
نجانے وہ کب
دن سے
میرے لبادے کو چھوتی ہوئی
برق کے ایک کوندلے کی صورت
گزر گئی
پھر اُفق کی سیاہی میں
دھبہ سا بنتی گئی
آخرمیں
مٹ گئی! (۱۵)
ہم راج موت کا دیوتا یا موت کا فرشتہ ہے ۔ موت عمر بھر انسان کے پیچھے رہتی ہے۔ انسان اس سے بھاگ نہیں سکتا کیونکہ موت کی رفتار انسان کی رفتار سے تیز ہوتی ہے۔ اس نظم میں انسانی زندگی کے یہ تمام حوالے ، بچپن، جوانی، زندگی کی مصروفیتیں اور بڑھاپے کا سمندر سب موجود ہیں۔ جوانی کی خوبصورت راتوں کا حوالہ اور اس کے ساتھ بچپن کی نادانیاں اور جوانی کی مصروفیتیں یہ سب حوالے اس نظم میں موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ نظم ذاتی حوالوں سے بھی خاصے کی چیز ہے۔ اس حوالے سے وزیر آغا لکھتے ہیں:
’’میری یہ نظم بیسویں صدی کے پچاس سالوں کا احاطہ کرتی ہے۔ ان پچاس سالوں میں ملکی، غیر ملکی اور شخصی سطح پر جو واقعات رونما ہوئے اس نظم کا موضوع نہیں۔ مگر ان واقعات اور سانحات نے میری ذات کے اندر جو گھاؤ پیدا کیے اور جو نشیب و فراز جنم دیے، ان سب کی باز آفرینی اور ان کے وسیلے سے زندگی کے پُر اسرار معنی تک رسائی کی کوشش ۔۔۔ بس یہی اس نظم کا میدانِ تگ و تاز ہے۔‘‘ (۱۶)
مٹ گئی
نیلے آکاش کا
آخری ابرپارہ بنی
اپنے اندر اُتر کر
فضاؤں میں تحلیل ہوتی گئی
اور میں
اپنے بوجھل پیوؤں کے محبس سے
آزاد ہو کر
ہزاروں برس کی گھنی نیند سے
جیسے بیدار ہو کر
تحیر میں ڈوبا
انوکھی چکا چوند کے
روبرو آگیا
میں نے دیکھا کہ ہر چیز
خود اپنے ہونے کا اعلان تھی
اپنی خوشبو کے اندر بسی تھی
خود اپنی ہی لو سے منور تھی
چاروں طرف
قرب کی موہنی دلکشی میں
حنائی سارک دستِ نازک بنی
ہر کسی کو نظر آرہی تھی (۱۷)
وزیر آغاصاحب کی یہ بات کہ گزشتہ پچاس سالوں کے دوران رونما ہونے والے واقعات کی یہ نظم تاریخی نہیں ہے بلکہ یہ نظم ان واقعات کا مرے اندرون پر اثر انداز ہونے اور میری ذات کے اندر جو گھاؤ پیدا کیے یہ اس نظم کا موضوع ہیں۔ اس سے نظم کے مزاج کا بھی پتہ چلتا ہے کہ نظم کا رجحان باہر سے اندر کی طرف ہے یعنی باہر ہونے والے واقعات کا اندرون پر جو اثر پڑتا ہے اس کا اظہار نظم کا موضوع ہے۔ اس حوالے سے خود وزیر آغا صاحب لکھتے ہیں:
’’نظم کی جہت باہر سے اندر کی طرف ہے لیکن اس کے مخصوص عمل کے پیشِ نظر کہ یہ آوازہ خرامی میں مبتلا ہوکر حقائق سے نبرد آزما ہوتی ہے۔ شاید یہ غلط فہمی پیدا ہوجائے کہ اس کے ان دونوں اعمال میں تضاد ہے حالانکہ تضاد قطعاً کوئی نہیں ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ نظم ایک مکمل شخصیت کی مظہر تو ہے لیکن اپنی پیش قدمی کو جاری رکھنے کے لیے اسے داخلی قوت بھی درکار ہے اور اس داخلی قوت کے حصول کے لیے اسے اجتماعی لاشعور میں غوطہ لگانے کی ضرورت پڑتی ہے۔‘‘(۱۸)
یعنی نظم کے لیے اگر ایک طرف خارجی واقعات سہارا بنتے ہیں تو دوسری طرف داخلی قوت بھی اسے مکمل صورت عطا کرتی ہے ۔ان دونوں کا ملاپ ہی ایک مکمل نظم کی تخلیق کے لیے ضروری ہے۔ وزیر آغا صاحب نے بھی اس نظم کی تخلیق کے لیے اگر ایک طرف خارج میں ظہور پذیر ہونے والے واقعات کو موضوع بنایا تو دوسری طرف اپنی ذات میں موجود قوت کا سہارا بھی لیا اور تب جا کر نظم ’’آدھی صدی کے بعد‘‘ وجود میں آئی۔ نظم ’’آدھی صدی کے بعد‘‘ کے اگر ایک طرف ایک سوانحی تجربہ ہے تو دوسری طرف اس میں موجود محاکاتی نظام بھی قابل ستائش ہے۔ مثلاً ’’صبح کا منظر‘‘ دیکھیں:
سحر
روز کمرے کی چق کو ہٹاتی
مرے پاس آتی
مرے نرم بستر کی چادر بدلتی
مجھے جیسے پر مار کر
گھر سے باہر نکلنے پہ
مجبور کرتی
یہ کہتی:
بہت سو لیے تم
اُٹھو
گھر سے باہر نکل کر بھی دیکھو
ہواکیسی تازہ ہے
کومل ہے
اور دھوپ کے لمس میں
کتنا نشہ ہے
لذت ہے
کب تک یونہی
پوستی بن کے
بستر میں لیٹے رہوگے؟(۱۹)
یہاں پر ایک مزے کی بات سامنے آتی ہے ۔ وہ یہ کہ قاری یہ حصہ پڑھتے ہوئے فیصلہ نہیں کرپاتا کہ ’’سحر‘‘کا لفظ مصنف نے صبح کے لیے استعمال کیا ہے یا وہ بیوی کی بات کر رہا ہے۔ بڑے خوبصورت اور جاندار انداز میں شاعر نے صبح کی آمد کی تصویر کھینچی ہے۔ لیکن دن بھر کی مصروفیتوں کے بعد جب شاعر تھک جاتا ہے اور شام آتی ہے تو اس کی آمد کو اور اس کے مکالمے کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے:
سحر
روز ایسے ہی بکتی
مگر شام ہوتے ہی
کہتی
بہت تھک گئے ہو
چلو
اپنی آرام کرسی میں لیٹو
اُتارو
یہ چمڑے کے
سوکھے ہوئے بوٹ
دیکھو
یہ بالوں میں پھر
ڈینڈرف آگیا ہے
بہت تھک گئے ہو
یوں ہی ۔۔۔ اپنی آرام کرسی میں
لیٹے رہو
بس۔۔۔ اسی طرح لیٹے رہو! (۲۰)
یہ اور اس طرح کی دوسری بہت سی باتیں اس نظم کا حوالہ ہیں لیکن اس نظم کا ایک اور حوالہ اس نظم کا سفر ہے جو حال سے ماضی کی طرف ہے اور پھر ماضی سے حال کی طرف ہے یعنی اس نظم میں حال اور ماضی دونوں حوالے ملتے ہیں ۔ اس سفر کے دوران شاعر بہت سارے رستوں سے گزر کر مصیبتوں سے نبٹ کر آگے بڑھتا ہے اور ذہنی اور جسمانی سطرح پر تبدیلیاں محسوس کرکے اس راز کو پالیتا ہے کہ یہ سب کچھ میں ہوں ، یہ کائنات میری آنکھیں ہیں۔یہ سدا مجھ کو تکتی رہتی ہیں۔ اور جب اسے یہ عرفان حاصل ہوتاہے تو یہ نظم کا آخری حصہ ہے اور اس سفر کا ثمر بھی ہے اور ساتھ ہی قاری کے لیے خوشی کا باعث بننے والا حصہ بھی ہے۔ کیونکہ اس کو احساس ہوتا ہے کہ شاعر کا یہ سفر رائیگاں کا سفر نہیں ہے۔
مرا اس سے
کوئی تعارف نہیں ہے
مجھے تو فقط
اپنے ’’ہونے ‘‘کا عرفان ہے
میں تو بس اس قدر جانتا ہوں
پروں کو ہلاتی
حسین قوس بن کر
مری سمت آتی ہوئی
فاختہ
پھڑ پھڑاتے ستارے
گھنی گھاس کی نوک پر آسماں
سے اُترتی نمی
اور پورپ کے ماتھے پہ
قشقے کا مدھم نشاں
تیرگی کی گپھا سے نکلتا ہوا
روشنی کا جہاں
دھرتیاں، کہکشائیں، جھروکے
جھروکوں میں اطلس سے کومل بدن
بیگی پلکوں پہ دکھ کی تپکتی چبھن
سبز شہدوں کی بہتی ہوئی آبجو
اک انوکھے پر اسرار معنی کے
گھاؤ سے رستا لہو
مسکراتے ہوئے لب
یہ سب
میرے اوتار ہیں
میری آنکھیں ہیں
مجھ کو ہمیشہ سے تکتی رہی ہیں
سدا مجھ کو تکتی رہیں گی !! (۲۱)
ڈاکٹر وزیر آغاکی یہ نظم کئی ایک حوالوں سے یاد رکھنے لائق ہے چاہے وہ اس کا علامتی انداز ہو یا اس میں موجود تاریخی حوالے ہو چاہے وہ اس کا پچاس سال پر محیط ذہنی سفر ہو یا اس میں گزرے لمحوں کا ماتم۔ اس نظم کا ہر حوالہ فطرتی ہے لیکن ان سب کے علاوہ بھی اس نظم کا ایک اور حوالہ بھی بنتا ہے اور وہ ہے ’’زندگی‘‘۔ اس بارے میں جان عالم لکھتے ہیں:
’’آدھی صدی کے بعد‘‘ سے گزرنے کے لیے زندگی سے گزرنا پڑتا ہے ، کچھ کہنا کم پڑجاتا ہے۔ یہاں سے گزرتے ہوئے جن تصویری سلسلوں کو آنکھیں دیکھ پاتی ہیں۔ انہیں لفظ اپنی گرفت میں لانے سے گریز کرتے ہیں۔ اس لیے جو زندگی سے گزرا ہو اُسے ’’آدھی صدی کے بعد‘‘ سے گزر کر ہی ان محسوسات کو پانا ہے۔ جسے لفظوں کی پُر اسرار گلیوں نے بے قتل بند کر رکھا ہے۔‘‘(۲۲)
جان عالم کی اس بات سے اتفاق کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس نظم میں زندگی کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ وہ زندگی کے ابتدائی دنوں کی چھوٹی چھوٹی شرارتیں ہو یا جوانی (ندی) کی پر جوش راتیں یا دریا سے مماثل زندگی کی مصروفیتیں ہوں اور یا انسان کو خود سے ملانے والا سمندر جو بھی حوالہ ہو اس کا تعلق زندگی سے ہے۔ زندگی کے پچاس سالوں پر مشتمل سفر اس نظم کا حصہ ہے۔ جس نے اس نظم کو ماضی سے تعلق کا ایک مضبوط حوالہ بنادیا ہے۔

خیرالابرار۔ ایم فل اسکالر، شعبہ اردو، جامعہ پشاور
حوالہ جات
۱۔        عذرا اصغر، لفظ ِ گویا مشمولہ مجلّہ تجدید (ڈاکٹر وزیرآغا نمبر) مرتبین: عذرا اصغر، شبہ طراز، جلد ۲۲، شمارہ ۳،۴  جولائی دسمبر ۲۰۱۱ء ، ص ۷
۲۔        ڈاکٹر سلیم اختر، ’’اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ‘‘، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور، ۲۰۱۵ء، ص ۴۸۵
۳۔       ایضاً       ص ۹۱۔۶۹۰
۴۔       وزیر آغا،ڈاکٹر، ’’آدھی صدی کے بعد(طویل نظم‘‘، مکتبہ اُردو زبان سرگودھا، ۱۹۸۱ء، ص ۹۶۔۹۵
۵۔       وزیر آغا، ڈاکٹر،’’اردو شاعری کا مزاج‘‘ ، مجلس ترقی ادب لاہور، ۲۰۰۸ء، ص ۲۸۰
۶۔        وزیر آغا، ڈاکٹر، ’’آدھی صدی کے بعد(طویل نظم‘‘، مکتبہ اُردو زبان سرگودھا، ۱۹۸۱ء، ص ۹۴۔۹۳
۷۔       ایضاً       ص ۳۔۲
۸۔       ایضاً       ص ۱۳۔۱۲
۹۔        رشید امجد، ’’وزیرآغا کی نظموں کا فکری پس منظر‘‘، مشمولہ رویے اور شناختیں (رشید امجد) ، مقبول اکیڈمی لاہور ۱۹۸۸ء، ص ۹۴
۱۰۔       وزیر آغا،ڈاکٹر، ’’آدھی صدی کے بعد(طویل نظم‘‘، مکتبہ اُردو زبان سرگودھا، ۱۹۸۱ء، ص ۴۶۔۴۵
۱۱۔       ایضاً       ص ۴۸۔۴۷
۱۲۔       ایضاً       ص ۴۹
۱۳۔      ڈاکٹر انور سدید، ’’اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ‘‘، عزیز بُک ڈپو لاہور، ۲۰۰۶ء، ص ۱۸۔۵۱۷
۱۴۔      وزیر آغا،ڈاکٹر، ’’آدھی صدی کے بعد(طویل نظم‘‘، مکتبہ اُردو زبان سرگودھا، ۱۹۸۱ء، ص ۲۷۔۲۲۶
۱۵۔      ایضاً       ص ۸۳۔۸۲
۱۶۔       ایضاً       ص ۸
۱۷۔      ایضاً       ص ۸۵۔۸۴
۱۸۔      ڈاکٹر وزیر آغا، ’’اردو شاعری کا مزاج‘‘، مجلس ترقی ادب لاہور، ۲۰۰۸ء، ص ۲۸۰
۱۹۔       وزیر آغا،ڈاکٹر، ’’آدھی صدی کے بعد(طویل نظم‘‘، مکتبہ اُردو زبان سرگودھا، ۱۹۸۱ء، ص ۷۰۔۶۹
۲۰۔      ایضاً       ص ۷۱۔۷۰
۲۱۔       ایضاً       ص ۱۰۴۔۱۰۳
۲۲۔      جان عالم، ’’وزیر آغا کی طویل نظم ’’آدھی صدی کے بعد‘‘ کا مطالعہ‘‘ مشمولہ: تجدید (ڈاکٹر وزیرآغانمبر) مرتبین: عذرا اصغر، شبہ طراز، جولائی دسمبر ۲۰۱۱ء، ص ۱۹۷

شکریہ مجلہ خیابان

ایک تبصرہ چھوڑیں