وصالِ یار کی جب بات نکلی
بمشکل زندگی اک رات نکلی
تھے زینت آنکھ کی دو چار آنسو
گرے ایسے کہ پھر برسات نکلی
کبھی نکلا مری تقدیر میں کچھ
ہمیشہ رنج کی بہتات نکلی
تمہاری یاد کا ممنون ہوں میں
ہمیشہ قاطعِ صدمات نکلی
مجھے گستاخ غم ہے دوستوں کا
انہی کی گھات کاری گھات نکلی
گستاخ بخاری