وفا کی جائے پر اس کی اداکاری نہ کی جائے
وگرنہ اب کسی سے دوستی یاری نہ کی جائے
محبت آپ ہو جائے تو کی جائے سدا لیکن
دکھانے کے لیے یہ کیفیت طاری نہ کی جائے
بنا کر بات کرنے سے بنی ہے بات کب اے دل
سو عرضِ حال کی پہلے سے تیاری نہ کی جائے
بھلا کی ہے کسی نے رونے والوں کی کبھی پروا
سو اپنوں کے بھی آگے گریہ و زاری نہ کی جائے
تو کیا اب عمر بھر رہنا پڑے گا اجنبی بن کر
تو کیا اب دوستوں کی بھی طرف داری نہ کی جائے
ہر اک مظلوم سے ہر حال میں کی جائے ہمدردی
مگر ظالم کی کچھ ہو جائے دل داری نہ کی جائے
بجز نام و نمائش اور ہے ہی کیا جواز اس کا
اگر غمگین لوگوں کی ہی غم خواری نہ کی جائے
ڈاکٹر اقبال پیرزادہ